• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 173943

    عنوان: موبائل کے ذریعہ تصویر کشی كا حكم

    سوال: آج کل موبائل کے ذریعہ تصویر کشی کا بہت عام رواج پڑ چکا ہے۔ اس کے حوالے سے کیا حکم ہے؟ اگر کسی کو اس سے منع بھی کیا جا? تو آگے سے یہ جواب ملتا ہے کہ علماء کرام بھی تو ٹی-وی پر آتے ہیں یا ویڈیو بنواتے ہیں یا تصویر کھچواتے ہیں۔ اور مفتی تقی صاحب کی طرف ایک فتویٰ بھی منسوب کرتے ہیں (واللہ اعلم فتویٰ واقعی ہے بھی یا نہیں)۔ اس حوالے سے کیا حکم ہے؟ کیا کوئی جواز کی صورت ہے جس کی وجہ سے کچھ علماء کرام یہ کام کرتے ہیں؟ مسلہ وضاحت سے بتائیں۔ مفتی تقی صاحب کا اگر اس حوالے سے کوئی فتویٰ ہے تو اس کی بھی وضاحت فرمائیں۔

    جواب نمبر: 173943

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 194-132/B=02/1441

    تصویر کشی ناجائز و حرام ہے۔ رواج پڑ جانے سے یا ٹی وی پر علماء کی تصویر آجانے سے حکم شرعی نہیں بدل جاتا، دارالعلوم دیوبند اور برصغیر کے تقریباً تمام دارالافتاء تصویر کشی کے ناجائز و حرام ہونے کا فتوی دیتے چلے آئے ہیں اور اب بھی یہی فتوی دیتے ہیں؛ البتہ شرعی ضرورت اور اضطرار کی حالت کے احکام اور ہوں گے، اس مسئلہ پر تفصیلی بحث ”چند اہم عصری مسائل“ نامی کتاب میں ہے جو نیٹ پر بھی دستیاب ہے آپ اس کا مطالعہ کر سکتے ہیں، بقیہ مفتی تقی صاحب کی کیا رائے ہے وہ ابھی بقید حیات ہیں آپ انھیں سے بالتفصیل معلوم کرلیں۔ عن عبد اللہ بن مسعود: إن أشد الناس عذاباً یوم القیامة المصوّرون۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث: ۲۱۰۹) وقي التوضیح: قال أصحابنا وغیرہم: تصویر صورة الحیوان حرام أشد التحریم وہو من الکبائر وسواء صنعہ لما یمتہن أو لغیرہ فحرام بکلّ حال؛ لأن فیہ مضاہاة لخلق اللہ وسواء کان في ثوب أو بساط أو دینار أو درہم أو فلس أو إناء أو حائط ․․․․․․ وبمعناہ قال جماعة العلماء مالک والثوری وأبوحنیفة وغیرہم رحمہم اللہ۔ (عمدة القاری، باب عذاب المصورین یوم القیامة: ۱۰/۳۰۹، ط: دارالطباعة العامرة) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند