متفرقات >> حلال و حرام
سوال نمبر: 173943
جواب نمبر: 173943
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 194-132/B=02/1441
تصویر کشی ناجائز و حرام ہے۔ رواج پڑ جانے سے یا ٹی وی پر علماء کی تصویر آجانے سے حکم شرعی نہیں بدل جاتا، دارالعلوم دیوبند اور برصغیر کے تقریباً تمام دارالافتاء تصویر کشی کے ناجائز و حرام ہونے کا فتوی دیتے چلے آئے ہیں اور اب بھی یہی فتوی دیتے ہیں؛ البتہ شرعی ضرورت اور اضطرار کی حالت کے احکام اور ہوں گے، اس مسئلہ پر تفصیلی بحث ”چند اہم عصری مسائل“ نامی کتاب میں ہے جو نیٹ پر بھی دستیاب ہے آپ اس کا مطالعہ کر سکتے ہیں، بقیہ مفتی تقی صاحب کی کیا رائے ہے وہ ابھی بقید حیات ہیں آپ انھیں سے بالتفصیل معلوم کرلیں۔ عن عبد اللہ بن مسعود: إن أشد الناس عذاباً یوم القیامة المصوّرون۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث: ۲۱۰۹) وقي التوضیح: قال أصحابنا وغیرہم: تصویر صورة الحیوان حرام أشد التحریم وہو من الکبائر وسواء صنعہ لما یمتہن أو لغیرہ فحرام بکلّ حال؛ لأن فیہ مضاہاة لخلق اللہ وسواء کان في ثوب أو بساط أو دینار أو درہم أو فلس أو إناء أو حائط ․․․․․․ وبمعناہ قال جماعة العلماء مالک والثوری وأبوحنیفة وغیرہم رحمہم اللہ۔ (عمدة القاری، باب عذاب المصورین یوم القیامة: ۱۰/۳۰۹، ط: دارالطباعة العامرة) ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند