متفرقات >> حلال و حرام
سوال نمبر: 17246
اگر
کسی بھی دینی جماعت کا امیر حکم دے کسی ایسے مسئلہ کے بارے میں جس میں ایک ہی مذہب
کے علماء کا اختلاف ہو یعنی کچھ لوگ اس کو مباح کہہ رہے ہوں اورکچھ اس کو حرام کہہ
رہے ہوں توامیر اگر حکم دے کہ مباح والا کام کرو، تو کیاامیر کا حکم ماننا جائزہے،
مثال کے طور پر علماء دیوبند میں سے کچھ کہتے ہیں کہ ویڈو بنانا دین کی اشاعت کے
لیے جائز ہے، جب کہ کچھ کہتے ہیں کہ حرام ہے تواگر امیر یہ کہے کہ تم دین کی اشاعت
کے لیے ویڈیو بناؤ تو کیا اس معاملے میں امیر کی بات ماننا جائز ہے، یا انکار
کردینا چاہیے؟
اگر
کسی بھی دینی جماعت کا امیر حکم دے کسی ایسے مسئلہ کے بارے میں جس میں ایک ہی مذہب
کے علماء کا اختلاف ہو یعنی کچھ لوگ اس کو مباح کہہ رہے ہوں اورکچھ اس کو حرام کہہ
رہے ہوں توامیر اگر حکم دے کہ مباح والا کام کرو، تو کیاامیر کا حکم ماننا جائزہے،
مثال کے طور پر علماء دیوبند میں سے کچھ کہتے ہیں کہ ویڈو بنانا دین کی اشاعت کے
لیے جائز ہے، جب کہ کچھ کہتے ہیں کہ حرام ہے تواگر امیر یہ کہے کہ تم دین کی اشاعت
کے لیے ویڈیو بناؤ تو کیا اس معاملے میں امیر کی بات ماننا جائز ہے، یا انکار
کردینا چاہیے؟
جواب نمبر: 17246
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ھ):2116=1700-11/1430
جس حکم کے ماننے میں کسی محظور شرعی کا اندیشہ نہ ہو مثلاً فلاں گاڑی سے سفر کرو وغیرہ تو ایسے احکامات کا ماننا تو ضروری ہے، اور جس حکم میں ارتکابِ حرام ظاہر ہو، اس کا ماننا حرام ہے اور جو معاملہ جائز وحرام کے مابین مشتبہ ہو اس میں امیر صاحب اور ان کے متبعین کے ذمہ راجح پر عمل کرنا واجب ہے اور مرجوح کا ترک ضروری ہے، اور مرجوح عدم کے درجہ میں ہے، اگر امیر صاحب ایسے معاملات میں حکم دیں تو اصحابِ فتویٰ حضرات سے مراجعت کرکے راجح اور مرجوح کو معلوم کریں، البتہ اگر وہ خود دلائل میں غور و فکر کرکے راجح مرجوح کو الگ الگ کرنے کی استعداد رکھتے ہوں تو خود استنباط کرکے راجح کو مقرر کریں، اور خود بھی اس پر عمل کریں، اور قوم کو بھی اس کا حکم دیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند