متفرقات >> حلال و حرام
سوال نمبر: 169856
جواب نمبر: 16985601-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 821-685/B=08/1440
خنزیر قطعی حرام ہے اس کا گوشت پکانا بھی حرام ہے اور حرام کام کی اجرت بھی حرام ہے اس لئے مسلمان آدمی کو ایسا کام ترک کرکے کوئی جائز کام اختیار کرنا چاہئے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ملازموں کے لیے NPS(نئی
پنشن اسکیم) آئی ہے جو کہ سود پر مبنی ہے۔ حکومت ہمارے پیسے روک کر اسے لائف انشورنس
یا کوئی اور جگہ لگاکر اس کے سود سے ہمیں پنشن دے گی۔ کیا ایک مسلمان کو اس پنشن
اسکیم کو قبول کرنا چاہیے؟ سوال کافی سنجیدہ ہے، مہربانی ہوگی جواب مل جائے۔
کیا پنی پراپرٹی کو بینک کو کرایہ پر دیا جاسکتا ہے؟
1653 مناظرآج
کل لوگ بغیر کوئی آفس بنائے ہوئے پھرتے رہتے ہیں اور دوسرے ایجنٹوں کے رابطہ میں
رہتے ہیں اور گراہکوں کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور بہت زیادہ چار ج لیتے ہیں ۔کیا
یہ اسلام میں حلال ہے ؟ (۲)ایجنٹ
کا چارج معاملہ کی مالیت کے اعتبار سے بدلتا رہتاہے (زیادہ سے زیادہ نصف فیصد، ایک
یا دو فیصد)۔جب ایک مرتبہ معاملہ مکمل ہوجاتاہے تو مشتری بائع کو پیشگی رقم دیتا
ہے اور مشتری کو پوری ادائیگی کرنے کے لیے ایک وقت دیا جاتاہے۔ اگر مشتری متعین
تاریخ تک ادائیگی نہیں کرتا ہے تو کیا پیشگی ادا کی ہوئی رقم ضبط ہوجائے گی؟ یعنی
بائع وہ رقم مشتری کو واپس نہیں کرے گا،کیا یہ اسلام میں جائز ہے؟(۳)مشتری بائع سے ایجنٹ
/دلال کے ذریعہ سے ملتا ہے۔ معاملہ مکمل کرلیا گیا تھا اورمشتری نے بائع کو ایڈوانس
رقم دے دی تھی، لیکن ایجنٹ کے چارج کا ذکر نہیں کیا تھا۔ بعد میں اس نے دو فیصد پر
اصرار کیا جوکہ ایک کم مالیت کے معاملہ پر ہے۔ کیا ایجنٹ حق بجانب ہے اور اس کا
دلالی مانگنا جائزہے؟ (۳-الف)مشتری
نے مالی پریشانی کی وجہ سے ادائیگی کی آخری تاریخ سے پہلے معاملہ ختم کردیا تھا،
اور بائع ایڈوانس رقم واپس کرنے پرتیار ہوگیا، لیکن ایجنٹ دگنی دلالی مانگتا ہے۔ کیا
ایجنٹ کے لیے دلالی لینا حلال ہے جب کہ لین دین ختم ہوگیا ہے،اور دوگنی؟ برائے کرم
جواب عنایت فرماویں۔
میرے شوہر کی کوئی ملازمت نہیں ہے، براہ کرم، کوئی دعایا وظیفہ بتادیں۔
1578 مناظراگر کوئی ادارہ خودہی یہ پیش کش کرے کہ ہم آپ کو چھ ماہ میں دو تین سال کی ڈگری دیں گے۔ پیپر بھی دینے ہوں گے لیکن وہ صرف خانہ پری ہوگی تو کیا اس ڈگری پر نوکری کرنا جائز ہے؟
1707 مناظرمیں
پاکستان میں ایک کمپنی کے اکاؤنٹ شعبہ میں کام کرتاہوں۔ ہماری کمپنی گورنمنٹ کو
ٹیکس دینے سے بچنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کرتی ہے۔ یعنی ان طریقوں کے ذریعہ ٹیکس
چوری کرتی ہے۔ مثلاً اخراجات کے جعلی بل بناتی ہے جس سے انکم کم ظاہر کرتی ہے، جس
سے انکم ٹیکس سے بچ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دو طرح کے اکاؤنٹ چلاتی ہے ایک تو دفتری
جو کہ وہ گورنمنٹ کو دکھاتی ہے دوسرا غیر دفتری جو کہ وہ ٹیکس سے بچنے کے لیے
بناتی ہے او رگورنمنٹ کو ظاہر نہیں کرتی۔ اس تفصیل کے بعد آپ سے مسئلہ یہ معلوم
کرنا ہے کہ (۱)کیا
ہماری کمپنی کا اس طرح سے کرنا شریعت کے اعتبار سے حرام اور ناجائز ہے؟ (۲)کیا میرا اس کمپنی میں
کام کرنا اور ٹیکس سے بچنے کے لیے ایسے اکاؤنٹ بنانا حرام ہے یا ناجائز ہے؟ (۳)اور کیا میری تنخواہ
جائز ہے یا ناجائز، جب کہ کمپنی کا بنیادی کاروبار شریعت کی رو سے جائز ہے؟
چوری كے پیسوں سے كیے گئے كاروبار كی زكات مستحقین كے لیے درست ہے یا نہیں؟
3364 مناظرمیں نے کمپیوٹر پرنٹراورموبائل کا کورس کیا
ہے اب میں اس کی مرمت کرنے کی دکان کھولنا چاہتاہوں۔ یہ اسلامی نظریہ سے کیسا ہے؟
برائے مہربانی ہماری مدد کریں۔
اس وقت ڈاکٹر لوگ مریضوں کو کچھ منتخب
کمپنیوں کی دوا دیتے ہیں، جو کہ مہنگی بھی ہوسکتی ہے، اور یہ دوائیں صرف کچھ خاص
میڈیکل اسٹور میں دستیاب ہوتی ہیں جو کہ ان ڈاکٹروں کے مطب اور ہاسپٹل کے قریب
واقع ہوتے ہیں ، وہ ڈاکٹر ایسا صرف ان کمپنیوں اور میڈیکل اسٹور کے مالکوں سے
کمیشن حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں۔اگر کوئی کمپنی یا میڈیکل اسٹور کمیشن دینے سے
منع کرتاہے تو ڈاکٹر لوگ اس کمپنی اور میڈیکل اسٹور کی دوا لینے کا مشورہ نہیں
دیتے ہیں۔ ڈاکٹروں کا کمپنیوں اور میڈیکل اسٹور کے مالکوں سے اپنا منافع اور زائد
آمدنی حاصل کرنے کے لیے رابطہ ہوتا ہے۔ برائے کرم قرآن او رحدیث کی روشنی میں جواب
عنایت فرماویں، کیا اس طرح کا عمل درست ہے یا نہیں، اور کیا اس طرح کا کمیشن لینا
جائز ہے یا نہیں؟