• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 168254

    عنوان: ذی روح تصاویر والے کپڑوں کا حکم

    سوال: یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ مذہب اسلام انسانی زندگی کے تمام گوشوں کی راہنمائی کرتا ہے جہاں اس نے عقائد، عبادات اور اخلاق کی تعلیم دی وہیں اس نے معاشی زندگی کی طرف بھی توجہ دی ہے اور اس نے معیشت کے تین ذرائع بتاتے ہیں: ا۔ زراعت ۲۔ صناعت ۳۔ تجارت، جس میں تجارت کو سب سے زیادہ اہمیت اور فضیلت دی گئی ہے اور جس کے اندر حلال وحرام کے درمیان تمیز کے اصول بھی بتلائے گئے ہیں۔ الحمد للہ! آج بنارس کے اکثر مسلمانوں کی معیشت کے جوذرائع ہیں وہ کپڑے اور ساڑی کا تیار کرنا ، کرانا اور انکی تجارت کرنا ہے لیکن آج مارکیٹ میں ایسے کپڑے سامنے آرہے ہیں جس پر ذی روح تصویریں ہوتی ہیں جسکے بنانے میں بہت سے مسلمان یا تو ناواقفیت کی بنیاد پر یا اپنے کاروبار کو فروغ دینے کیلئے یا کام نا ملنے کی وجہ سے مجبوراً ملوث ہیں اس سلسلے میں شریعت اسلامیہ کے کیا اصول و قواعد ہیں ان کی روشنی میں درج ذیل سوالات کے جوابات دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں: ا۔ ایسا کپڑا جس پر ذی روح تصویریں بنی ہوئی ہوں تیار کرنا، کرانا اور انکی تجارت کرنا کیسا ہے ؟ ۲۔ وہ کپڑے جس پر ایسی تصویریں بنی ہوں جو دور سے ذی روح تصویر معلوم ہوتی ہو یا اس کے مشابہ ہو یا اس کا سر کٹا ہوا ہو اور سر کے حصے پر پھول بنادیا جائے تو ایسے کپڑے تیار کرنا، کرانا اور ان کی تجارت کرنا کیسا ہے ؟ ۳۔ ایسے کپڑے کی کٹنگ (دھاگے کی صفائی) کرنا، کرانا کیسا ہے ؟ ۴۔ ایسے کپڑے پر ہینڈ ورک یعنی اسٹون وغیرہ لگانا اور لگوانا کیسا ہے ؟ ۵۔ ایسے کپڑے جس پرذی روح اور غیر ذی روح دونوں تصویریں بنی ہوئی ہوں تو کیا ذی روح تصویروں کو چھوڑ کر غیر ذی روح تصویروں پر کام کیا جاسکتا ہے ؟ ۶۔ ذی روح تصویروں کی گرافنگ یعنی نقشہ بنانا اور بنوانا کیسا ہے ؟ ۷۔ ایسے مسلمانوں کے یہاں جو مذکورہ قسم کے کپڑے تیار کرنے ، کرانے یا تجارت میں ملوث ہیں ملازمت کرنا ، نکاح پڑھانا اور دعوت قبول کرنا کیسا ہے ؟

    جواب نمبر: 168254

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:559-64T/L=7/1440

    (۱) کپڑوں میں ذی روح کی تصویر بنانا یا بنواناناجائز ہے ،حدیث شریف میں اس پر سخت وعید آئی ہے ؛البتہ اگر کوئی شخص ایسے کپڑوں کو بناتا یا بنواتا نہ ہو کسی اور جگہ سے لاکر فروخت کرتا ہواور تصویر تبعاً ہو تو فی نفسہ خریدوفروخت کی گنجائش ہو گی ۔عن عبد اللہ بن مسود رضی اللہ عنہ قال: سمعتُ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: أشد الناس عذابًا عند اللہ المصوّرون․ (مشکاة ص: ۳۸۵، کتاب الآداب، باب التصاویر)

     (۲)ایسی تصویریں جو دورسے تصویر معلوم ہوتی ہوں یا جن سے تصاویر کی عکاسی ہوتی ہو وہ سب تصویر کے حکم میں ہیں ان کاتیار کرنا جائز نہیں؛البتہ اگر سر کو کاٹ دیا جائے اور اس کی جگہ پھول وغیرہ بنادیا جائے تو پھر بنانے اور تجارت کرنے کی گنجائش ہوگی۔

    فالفرق بین التمثال وبین الصورة: أن صورة الشیء قد یراد بہا الشیء نفسہ، وقد یراد بہ غیرہ مما یحکی ہیئة الأصل، أما التمثال فہو الصورة التی تحکی الشیء وتماثلہ، ولا یقال لصورة الشیء فی نفسہ: إنہا تمثالہ.(الموسوعة الفقہیة الکویتیة 12/ 94،صادر عن: وزارة الأوقاف والشئون الإسلامیة الکویت) وقال فی البحر: وقید بالرأس لأنہ لا اعتبار بإزالة الحاجبین أو العینین․․․ وکذا لا اعتبار یقطع الیدین أو الرجلین (/۲ ۵۰ما یفسد الصلاة وما یکرہ فیہا) وقال الشامی: قولہ: أو مقطوعة الرأس أی سواء کان من الأصل أو کان لہا رأس ومحی، وسواء کان القطع بخَیطٍ خیط علی جمیع الرأس حتی لم یبق لہ أثر، أو یطلیہ بمغرة أو بنحتہ أو بغسلہ؛ لأنہا لا تعبد بدون الرأس عادة۔ (الدر المختار مع الشامی، کتاب الصلاة / باب ما یفسد الصلاة، ۴۱۸/۲زکریا)

    (۳۔۴) کپڑوں کی ایسی کٹنگ جس سے تصویر نمایاں ہو یا تصویر کے دھاگے کی صفائی یا اس پر ہینڈ ورک (اسٹون وغیرہ لگانا ) جائز نہیں۔

    (۵) غیرذی روح تصاویر پر کام کرنے کی گنجائش ہے۔ مستفاد:ولا یحضر المسلم مائدة یشرب فیہا خمر أو تؤکل المیتة، کذا فی الفتاوی العتابیة.(الفتاوی الہندیة 5/ 341)

    (۶) ذی روح کی گرافنگ یا نقشہ بنانا یابنوانا جائز نہیں۔ قال فی الہندیة: ولو استأجر رجلاً لیزخرف لہ بیتًا بتماثیل، والأصباغ من المستأجر، فلا أجر لہ، کذا فی السراجیة․ (الفتاوی الہندیة: /۴ ۴۵۰، کتاب الإجارة، الباب الخامس عشر فی بیان ما یجوز من الإجارة وما لا یجوز)

    (۷) مخلوط آمدنی میں غلبہ کا اعتبار ہوتا ہے اگر غالب آمدنی حرام ذرائع سے حاصل ہے تو تمام آمدنی پر حرام ہونے کا حکم عائد ہوگا اور ایسے شخص کے یہاں کھانا یا اس کا ہدیہ قبول کرنا جائز نہ ہوگا اور اگر غالب آمدنی حلال ذرائع سے حاصل ہے تو اس کے یہاں کھانے اور ہدیہ قبول کرنے کی گنجائش ہے تاہم ازراہِ تنبیہ احتیاط بہتر ہے۔ آکل الربا وکاسب الحرام أہدی إلیہ أو أضافہ وغالب مالہ حرام لا یقبل ولا یأکل ما لم یخبرہ أن ذلک المال أصلہ حلال ورثہ أو استقرضہ، وإن کان غالب مالہ حلالاً لا بأس بقبول ہدیتہ والأکل منہا الخ (الفتاوی الہندیة: ۳۴۳/۵ط: زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند