• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 165632

    عنوان: ٹھیکہ داری کی امیداوری میں دست برادری اور اس کے معاوضے کا حکم

    سوال: میرا نام حسین احمد ہے ، میں کوئٹہ پاکستان کا رہائشی ہوں، میں سرکاری ٹینڈرز میں بطور ٹھیکیدار شرکت کرتا ہوں اکثر یوں ہوتا ہے کہ کسی ٹینڈر میں حصہ لینے والے دو میں سے ایک ٹھیکیدار دوسرے کو اس ٹینڈر کی کل رقم سے ایک متعین رقم یا شرح دیکر اسے مقابلے سے دستبردار کرادیتا ہے یا بہت سے ٹھیکیدار مل کر ایک رقم یا شرح طے کرکے سب میں برابر تقسیم کرکے ایک ٹھیکیدار کے حق میں دستبردار ہوتے ہیں جسے رنگ کھا جاتا ہے کیا رنگ کا رقم اٹھانا یا دینا شر عا جائز ہے؟

    جواب نمبر: 165632

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:63-212/N=4/1440

    سرکاری ٹینڈرز میں جو ٹھیکہ دار ، امیدوار ہوتے ہیں، ان میں سے ہر ایک کا معاملہ ٹینڈر جاری کرنے والے سرکاری ادارے سے ہوتا ہے، کسی ٹھیکہ دار کا دوسرے ٹھیکہ دار سے کوئی معاملہ نہیں ہوتا اور نہ ایک کا دوسرے پر کوئی حق ہوتا ہے، جیسے: انتخابات میں اگر کسی عہدہ کے متعدد امیدوار ہوں تو ان میں کسی کا دوسرے امیدوار سے کوئی معاملہ یا اس پر کوئی حق نہیں ہوتا؛ اس لیے اگر کوئی یا چند ٹھیکہ دار مقابلے سے دست بردار ہوتے ہیں تو ان کے لیے ٹینڈر قبول کرنے والے ٹھیکہ دار سے کوئی معاوضہ لینا، ہرگز جائز نہیں، یہ بلاشبہ رشوت اور حرام ہے۔ اور اگر متعدد امید وار ہونے کی وجہ سے ٹھیکہ مناسب قیمت پر نہیں مل پاتا ہے تو امید وار آپس میں باہمی رضامندی سے باری باری ٹینڈر قبول کرنے کا نظام بناسکتے ہیں، اس میں شرعاً کچھ حرج نہیں ہے۔

    قال اللّٰہ تعالیٰ: ﴿وَاَخْذِہِمْ اَمْوَالَہُمُ النَّاسَ بِالْبَاطِلِ﴾ بالرشوة وسائر الوجوہ المحرمة (مدارک التنزیل وحقائق التأویل، سورة آل عمران، رقم لآیہ: ۴۲، ۱: ۲۰۲) ، وقال تعالی أیضاً في مقام آخر: ﴿سَمَّاعُوْنَ لِلْکَذِبِ اَکَّالُوْنَ لِلسُّحْتِ﴾ (سورة المائدة، رقم الآیة: ۴۲) ، اتفقوا جمیع المتأولین لہٰذہ الآیة علی أن قبول الرشاء محرم، واتفقوا علی أنہ من السحت التي حرمہ اللّٰہ تعالیٰ، والرشوة تنقسم إلیٰ وجوہ: منہا: الرشوة في الحکم، وذلک محرم علی الراشي والمرتشي جمیعًا، وہو الذي قال فیہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لعن اللّٰہ الراشي والمرتشي، وہو الذي یمشي بینہما، فذلک لایخلو من أن یرشوہ لیقض لہ بحقہ أو بما لیس بحق لہ (الجامع لأحکام القرآن الکریم للجصاص ۲/ ۴۳۳لاہور سہیل اکیڈمی) ، عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الراشي والمرتشي۔ (سنن أبي داوٴد، کتاب الأقضیة ، باب في کراہیة الرشوة ۲: ۵۰۴رقم: ۳۵۸۰، ط: دار الفکر بیروت، سنن الترمذي، أبواب الأحکام، باب ما جاء في الراشي والمرتشي في الحکم، ۱: ۲۴۸، رقم: ۱۳۳۷، وہٰکذا في سنن ابن ماجة، کتاب الأحکام، باب التغلیظ في الحیف والرشوة، رقم: ۲۳۱۳، ط: دار الفکر بیروت، صحیح ابن حبان رقم: ۵۰۵۴) ، من أخذ مال غیرہ لا علی وجہ إذن الشرع، فقد أکلہ بالباطل (الجامع لأحکام القرآن للقرطبي، ۲: ۳۲۳، ط: دار إحیاء التراث العربي بیروت) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند