• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 164131

    عنوان: ملازمت کے لیے رشوت دینے کا حکم

    سوال: اگر کسی کو کوئی ملازمت نہ ملتی ہو تو کیا وہ اس کے لئے رشوت دے سکتا ہے؟

    جواب نمبر: 164131

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1228-1025/N=11/1439

    اگر کوئی شخص کسی ملازمت کا واقعی استحقاق رکھتا ہے، یعنی: اس ملازمت کے لیے جو مطلوبہ شرائط ہیں، وہ سب اس میں پائی جاتی ہیں اور کوئی دوسرا امیدوار اس پر ترجیح نہیں رکھتا ؛ لیکن آفیسران میں رشوت خوری کی عادت کی وجہ سے رشوت کے بغیر ملازمت حاصل نہیں ہوسکتی تو ایسی صورت میں استحقاقی ملازمت کے لیے آفیسران کو رشوت دینے کی گنجائش ہوگی اور اس صورت میں رشوت کا گناہ آفیسران کو ہوگا، رشوت دینے والے کو نہ ہوگا۔اور اگر کوئی شخص ملازمت کا استحقاق ہی نہیں رکھتا اور وہ آفیسران کو رشوت دے کر ملازمت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس صورت میں ملازمت کے لیے رشوت دینا ہرگز جائز نہ ہوگا۔

    عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الراشي والمرتشي۔ (سنن أبي داوٴد، کتاب الأقضیة ، باب في کراہیة الرشوة ۲:۵۰۴رقم: ۳۵۸۰، ط: دار الفکر بیروت، سنن الترمذي، أبواب الأحکام، باب ما جاء في الراشي والمرتشي في الحکم، ۱:۲۴۸، رقم: ۱۳۳۷، وہٰکذا في سنن ابن ماجة، کتاب الأحکام، باب التغلیظ في الحیف والرشوة، رقم: ۲۳۱۳، ط: دار الفکر بیروت وصحیح ابن حبان رقم: ۵۰۵۴)، الرشوة ما یعطی لإبطال حق أو لإحقاق باطل، أما إذا أعطی لیتوصل بہ إلی حق أو لیدفع بہ عن نفسہ ظلماً فلا بأس بہ،……،قال التوربشتي:وروي أن ابن مسعودأخذ في شییٴ بأرض الحبشة،فأعطی دینارین فخلی سبیلہ (مرقاة المفاتیح، ۷: ۲۹۵، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)، وفیہ - فی المجتبی - أیضاً:دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن نفسہ ومالہ ولاستخراج حق لہ لیس برشوة، یعنی:في حق الدافع اھ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ، فصل فی البیع وغیرہ، ۹: ۶۰۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ۔ 


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند