• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 161065

    عنوان: بہت زیادہ نفع لینے کا حکم

    سوال: حضرت، میں کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ ریپیئر کرتا ہوں۔ میرا ایک دوست ایک دن کسی دوسرے کا کمپیوٹر ریپیئر کرانے میرے پاس لایا، میں نے اس کو ریپیئر کیا، میں نے ریپیئرنگ کے ۲۵۰/ روپئے لئے اور پارٹ (اجزاء/ پرزے) کے ۵۰۰/، یعنی میں نے صرف ۲۵۰/ روپئے کمایا۔ لیکن میرے دوست نے وہ کمپیوٹر جس سے لیا تھا اس سے ۱۷۵۰/ روپئے لیا۔ اور میرے سامنے وہ گاہک سے فون پر بات کر رہا تھا کہ ۱۷۵۰/ ہی روپئے ہونے ہیں اس سے کم نہیں کیونکہ وہ جو ریپیئر کرنے والے ہیں کم نہیں کر رہے ہیں۔ حالانکہ میں نے تو صرف ۲۵۰/ روپئے ہی کمایا ہے۔ اور ۵۰۰/ روپئے تو پارٹ کے لیا ہوں، کیا ایسا کرنا اس دوست کے لئے جائز ہے یا نہیں؟ نیز اگلی مرتبہ میں اس کا کام کروں یا نہیں؟ منافعہ کتنا کما سکتے ہیں؟ اور وہ دوست جو خود ریپیئر نہیں کرتا، کتنا منافعہ کما سکتا ہے؟

    جواب نمبر: 161065

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:884-852/N=9/1439

    صورت مسئولہ میں اگر آپ کے دوست نے کمپیوٹر مالک سے یہ طے نہیں کیا تھا کہ کمپیوٹر کی رپیئرنگ میں جو کچھ خرچہ ہوگا، میں اس پر آپ سے اتنا نفع لوں گا، مثلاً ہزار یا پانچ سو روپے ، یعنی: اپنے نفع کی مقدار کمپیوٹر مالک کو نہیں بتائی تھی تو صورت مسئولہ میں آپ کے دوست کا کمپیوٹر مالک سے محنتانہ کے طور پر ہزار روپے لینا فی نفسہ جائز ہے؛البتہ اس طرح من مانا نفع لینا مروت کے خلاف ہے، اس کے لیے محنتانہ کے طور پر سو، دو سو روپے بہت تھے ۔ اور جواز کی وجہ یہ ہے کہ اس نے گاہک سے فون پر یہ جو کہا کہ ۱۷۵۰/ روپے ہی چاہئے، اس سے کم نہیں؛ کیوں کہ جو رپیئر کرنے والے ہیں، وہ کم نہیں کررہے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنے نفع کے ساتھ انھیں جتنی رقم دے رہا ہوں، وہ اس سے کم پر راضی نہیں ہورہے ہیں؛ اس لیے میں بھی ۱۷۵۰/ روپے سے کم نہیں لوں گا؛ البتہ یہ تاویل خلاف ظاہر ہے؛ کیوں کہ اگر کمپیوٹر مالک کو معلوم ہوجائے کہ وہ بیچ میں ہزار روپے نفع لے رہا ہے تو وہ ہرگز پسند نہیں کرے گا؛ اس لیے اس طرح نفع کمانا بہرحال کراہت سے خالی نہیں، آدمی کو نفع لینے میں اعتدال اور مروت کا خیال کرنا چاہیے ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند