• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 159893

    عنوان: بیوی کا شوہر کے علم کے بغیر والدین پر مال خرچ کرنا

    سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے میں کہ ہندہ کا شوہر مالدار ہے اور ہندہ کے والدین پہلے مالدار تھے لیکن اب کسی وجہ سے ایسی حالت ہو گئی ہے کہ ان کا گھر چلنا مشکل ہو گیا ہے اور چونکہ اس کے والدین کا گھرانہ معاشرے میں عزت دار ہے اور والدین بھی کبھی کسی کے سامنے اشارة بھی اپنا محتاج ہونا ظاہر نہیں کرتے اور دوسری کئی مصلحتوں کی بنا پر اپنے والدین کا محتاج ہونا اپنے شوہر کو بتانا نہیں چاہتی اور والدین کی مدد بھی کرنا چاہتی ہے لہذا وہ اپنے جیب خرچ اور کبھی اپنا زیور بیچ کر والدین کی مدد کرتی ہے اس کے باوجودگھر کی شادی وغیرہ کے موقع پر ضروریات پوری نہیں پاتی تو اپنے شوہر سے جیب خرچ زائد مانگتی ہے تو شوہر نے اسے کہا کہ میرے جیب میں سے نکال لو چنانچہ وقتا فوقتا وہ شوہر کے جیب سے نکال لیا کرتی اور شوہر نے کبھی اس پر نکیر بھی نہیں کرتے اور جب وہ والدین کے پاس جاتی ہے تو شوہر کے علم میں لائے بغیر والدین کو اور اس کے بھائی بہنوں پر بھی خرچ کرتی ہے اور شوہر کے علم میں اس لئے نہیں لاتی کہ اگر پتہ چلے تو وہ یہ کہہ کر ضرور روکیں گے کہ تمہارے والدین تو مالدار ہیں ان کو اس کی کیا ضرورت ہے حالانکہ وہ وہ جانتی ہے کہ ان کی حالت کیا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ ہندہ کا اس طرح والدین پر خرچ کرنا کہاں تک درست ہے ؟ ہندہ نے مذکورہ تینوں قسم کے مال یعنی اپنا جیب خرچ اور اپنا زیور اور شوہر کے جیب سے نکا لا گیا مال سے کچھ زیورات خرید ے ہیں اب ان زیورات کو اپنے کسی عزیز رشتہ دار کو تجارت کے لئے دینا چاہتی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اس مذکورہ زیور کو تجارت میں لگانے کے بعد آنے والی رقم یعنی منافع کو اپنے والدین پر خرچ کرنا چاہتی ہے کیا یہ درست ہے ؟ مہربانی فرما کر مذکورہ بالا سوالات کا تشفی بخش جواب دیکر عند اللہ ماجور ہوں

    جواب نمبر: 159893

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:700-603/D=7/1439

    (۱) جیب خرچ کے طور پر جو رقم ملتی ہے اس کا مطلب تو صاف ہے کہ بیوی اس کی مالک ہے جہاں چاہے خرچ کرے اپنے اوپر یا کسی اور پر شوہر کے گھر میں موجود افراد اور ان کی ضروریات پر یا ان سب سے باہر۔ لہٰذا اس نام سے ملی رقم تو بیوی کو اپنے والدین کی ضروریات میں خرچ کرنا جائز ہے، مگر اس کی وجہ سے عورت پر خود ایسی تنگی وخشکی کا مظاہرہ نہ ہونے لگے جو شوہر کے لیے باعث تکلیف ہو۔

    (۲) زیور کی اگر بیوی خود مالک ہے تو اسے بھی ہرطرح کی ضروریات میں خرچ کرنے کا حق ہے۔

    (۳) البتہ شوہر کے جیب سے نکالی رقم کے سلسلہ میں یہ تفصیل ہے اگر شوہر کے اجازت دینے کا مطلب عمومی اور علی الاطلاق ہے یعنی اسے دوسروں پر خرچ کرنے کا علم بھی ہوجائے تو ناگواری نہ ہوگی تب تو وہی حکم ہوگا جو جیب خرچ کے نام سے ملی رقم کا ذکر کیا گیا اور اگر (۳) کی نکالی رقم کی مقدار اتنی زائد ہو کہ شوہر کو اس کا علم ہوجائے تو وہ اجازت نہ دے کیونکہ اس کی مراد تو تھوڑی تھوڑی رقم تھی جو عورت کی ذات اور اس کے گھر کی ضروریات کے سلسلے میں بوقت ضرورت لی گئی ہو تو پھر اس قدر زائد رقم لینا اور میکہ کے رشتہ داروں پر خرچ کرنا جائز نہ ہوگا، خواہ نقد کی شکل میں خرچ کیا جائے خواہ زیور بنواکر اسے تجارت میں لگاکر اس کے نفع سے خرچ کیا جائے۔

    حاصل یہ کہ جس رقم کا بیوی کو مالک بنادیا گیا اس میں تو اسے پورا اختیار ہے اور جس کے لیے حسب ضرورت لینے کی اجازت دی اس میں دوسروں پر خرچ کرنے کا جواز صراحةً یا دلالةً اجازت پر مبنی رہے گا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند