متفرقات >> حلال و حرام
سوال نمبر: 159815
جواب نمبر: 159815
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:773-152T/sn=8/1439
(۱) اگر کمپنی کا کاروبار بنیادی طور پر مباح ہے نیز وہ کمپنی مع اثاثہ موجود بھی ہے تو کسی کے لیے اس کے شیئرز خریدنا؛ تاکہ اس کے اصل منافع میں شریک ہو شرعاً جائز ہے، بس شرط یہ ہے کہ کمپنی جو سودی لین دین کرتی ہے اس سے بیزاری کا اظہار کرے نیز سالانہ جو کچھ نفع ملے اس میں سے سود کی مد (مثلاً فکسڈ ڈپوزٹ) میںآ ےئے ہوئے حصے کو فقراء پر صدقہ کردے۔ اگر شیئرز خریدنے کا مقصد انھیں مارکیٹ میں فروخت کرکے نفع کمانا ہو تو خرید وفروخت کے جواز کے لیے یہ ضروری ہے کہ فروخت کنندہ کے حق میں شیئرز کی ڈلیوری ہوچکی ہو ورنہ بیع قبل القبض ہونے کی وجہ سے یہ خرید وفروخت شرعاً جائز نہ ہوگی۔ نیز آپ بھی ڈلیوری سے پہلے اسے فروخت نہ کریں۔ (دیکھیں: فقہی مقالات: ۱/۱۴، امداد الفتاوی: ۲/۴۸)
(۲) لائف انشورنس پالیسی بنیادی طور پر سود پر مبنی پالیسی ہے اور قرآن وحدیث میں ”سودی“ معاملہ کرنے پر سخت وعیدیں آئی ہیں؛ لہٰذا لائف انشورنس پالیسی خریدنا شرعاً جائز نہیں ہے۔
(۳) یہ بھی سودی اسکیم ہے؛ اس لیے اسکیم لینا بھی شرعاً جائز نہ ہوگا۔
--------------------
جواب صحیح ہے البتہ یہ مزید واضح ہو کہ لائف انشورنس میں سود کی طرح قمار (جوا) کا پہلو بھی پایا جاتا ہے؛ اس لیے اس سے بچنا بہت زیادہ ضروری ہے۔ (ن)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند