متفرقات >> حلال و حرام
سوال نمبر: 156985
جواب نمبر: 156985
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:306-248/N=3/1439
(۱- ۳): حاجی خواہ مرد ہو یا عورت ہو، اس پر بہ ذات خود اپنی رمی کرنا واجب ہے، قدرت کے باوجود دوسرے سے رمی کرانا یا دوسرے کا اس کی طرف رمی کرنا شرعاً معتبر نہیں؛ اس لیے صورت مسئولہ میں جب سوال میں مذکور شخص نے ۱۰/ ذی الحجہ کو بیوی کی قدرت کے باوجود اس کی طرف سے نیابتاً رمی کی تو بیوی کی طرف سے یہ رمی شرعاً معتبر نہیں ہوئی اور جب بیوی نے وقت کے اندر خود رمی نہیں کی تو اس پر رمی ترک کرنے کی وجہ سے دم واجب ہے اور دم کا جانور صرف حدود حرم میں ذبح ہوسکتا ہے ، کہیں اور نہیں؛ اس لیے مکہ مکرمہ میں کسی عزیز کے پاس دم کی رقم بھیجواکر حدود حرم میں دم کا جانور ذبح کرادیا جائے۔
عن إبراہیم قال: یُحملُ المریض إلی الجمار، فإن استطاع أن یومي فلیوم، وإن لم یستطیع فلیوضع الحصی في حفِّہ، ثم یُرمی بہا من کَفِّہ (المصنف لابن أبي شیبة، ۶:۶۳۶، رقم الحدیث: ۱۵۳۹۴)،عن إبراہیم قال: یُشْہَدُ بالمریض المناسکُ کلُّہا، ویطاف بہ علی مَحمِل، فإذا رمی الجمار وُضع في کفِّہ، ثم رُميَ بہ من کفِّہ (المصدر السابق،۶:۶۳۶، رقم الحدیث:۱۵۳۹۵)، السادس - من شروط الرمي-أن یرمي بنفسہ فلا تجوز النیابة فیہ عند القدرةوتجوز عند العذر،……وحد المریض أن یصیر بحیث یصلي جالساً ؛ لأنہ لا یستطیع الرمي راکباً ولا محمولاً إما لأنہ تعذر علیہ الرمي أو یلحقہ بالرمي ضرر، فإن کان مریض لہ قدرة علی حضور المرمي محمولاً ویستطیع رمیا کذلک من غیر أن یلحقہ ألم شدید، ولا یخاف زیادة المرض ولا بطوء البرء، لا یجوز النیابة عنہ (غنیة الناسک، باب رمي الجمار، فصل في شرائط الرمي،ص: ۱۰۰، ط:قدیم)، والرجل والمرأة في الرمي، سواء إلا أن رمیہا في اللیل أفضل فلا تجوز النیابة عن المرأة بغیر عذر (المصدر السابق)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند