• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 156915

    عنوان: كسی تجارت كرنے والی كمپنی میں پيسہ لگانا؟

    سوال: درج ذیل مسئلہ کا جواب مطلوب ہے ، ایک کمپنی ہے جولوگوں کے پیسے سے تجارت کرتی ہے جس میں کم سے کم ایک لاکھ اور زیادہ سے زیادہ جتنا چاہے لگا سکتا ہے (اور کمپنی کی شرط ہے کہ پیسہ لگانے والا نفع اور نقصان دونوں میں شریک ہوگا ) مثال کے طور پر میں نے ایک لاکھ لگائے اب کمپنی اس سے ایک سال تک تجارت کرے گے اور سال کے آخر جو منافع آئے گا اصل رقم نکال کر منافع میں سے آدھی رقم کمپنی لے گی اور آدھی رقم مجھ کو دے گی اب اگر میں کمپنی سے نکلنا چاہوں تو کمپنی میری اصل رقم پوری واپس کر دے گی اور اگر کمپنی کے ساتھ تجارت جاری رکھنا چاہوں تو میری اصل رقم سے پھر ایک سال تجارت کرے گے اور آ خر سال میں اصل رقم الگ کرکے منافع میں سے ادھی رقم مجھے دے گی تو کیا اس کمپنی میں پیسہ لگانا جائز ہے ؟

    جواب نمبر: 156915

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:393-35T/H=5/1439

    صورت مسئولہ میں اگر کمپنی خود اپنا سرمایہ بالکل نہیں لگاتی؛ بلکہ صرف لوگوں کے پیسوں سے تجارت کرتی ہے تو یہ عقد مضاربہ ہوگا، اور عقد مضاربت میں نفع ونقصان دونوں میں شرکت نہیں ہوتی بلکہ نقصان کی تلافی اولاً منافع سے کی جاتی ہے اگر پھر بھی کچھ رہ جائے تو اس کا ذمہ دار رب المال ہوتا ہے؛ لہٰذا اگر کمپنی کا اپنا سرمایہ نہیں ہے اور نفع کا کوئی فیصد متعین کرلیا؛ لیکن نقصان کی صورت میں کمپنی بھی ذمہ دار ہوتی ہو تو یہ شرط شرعاً درست نہیں ہے؛ البتہ اس شرط فاسد سے عقد مضاربہ فاسد نہیں ہوگا، اور نقصان کی ذمہ داری اگر منافع جو دونوں نے لیے اس سے نقصان کی تلافی نہ ہوتی ہو تو صرف رب المال یعنی سرمایہ والے پر ہوگی اور نفع میں شرکت ہوگی، کل شرط یوجب جہالة فی الربح أو یقطع الشرکة فیہ یفسدہا، وإلا بطل الشرط وصح العقد اعتبارا بالوکالة قال الشامي: کشرط الخسران علی المضارب (الدر مع الرد، ۸/ ۴۳۳- ۴۳۴کتاب الشرکة، ط: زکریا دیوبند) و یبطل الشرط کشرط الوضیعة أي الخسران علی المضارب لأن الخسران جزء ہالک من المال فلا یجوز أن یلزم غیرَ رب المال؛ لکنہ شرط زائد لا یوجب قطع الشرکة في الربح ولا الجہالة فیہ فلا یفسد المضاربة؛ لأنہا لا تفسد بالشروط الفاسدة․ (مجمع الأنہر: ۳/ ۴۴۷، ط: فقیہ الأمت دیوبند) (کذا في تبیین الحقائق: ۵/ ۵۲۱، المضاربة، ط: زکریا دیوبند)

    اور اگر کمپنی نے خود کا سرمایہ بھی لگایا ہے تو نفع کا تناسب باہمی رضامندی سے طے ہوسکتا ہے؛ لیکن نقصان کی صورت میں دونوں فریق اپنے اپنے لگائے ہوئے سرمایہ کے بقدر اسے برداشت کریں گے، سرمایہ کی مقدار سے کم یا زائد کا ذمہ دار بنانا جائز نہیں ہے، مثلاً کمپنی کا سرمایہ نوّے فیصد اور گاہک کا سرمایہ دس فیصد ہے تو نقصان کی صورت میں پہلا فریق نوے فیصد اوردوسرا فریق دس فیصد کا ذمہ دار ہوگا، في مصنف عبد الرزاق ومصنف ابن أبي شیبہ عن علي رضي اللہ عنہ: الوضیعة علی المال والربح علی ما اصطلحوا علیہ فیتقدر بقدر المال (کنز العمال: ۱۵/ ۱۷۶رقم: ۴۰۴۸۲) إذا شرطا الربح علی قدر المالین متساویا أو متفاضلا فلا شک أنہ یجوز ویکون الربح علی الشرط․․․ والوضیعة علی قدر المالین متساویا ومتفاضلا لأن الوضیعة اسم لجزء ہالک من المال فیتقدر بقدر المال․ (بدائع الصنائع: ۵/ ۸۳الشرکة، ط زکریا دیوبند۔ ۷/ ۵۲۳الشرکة ط: دار المعارف دیوبند․ ثم یقول أي الإمام محمد رحمہ اللہ فما کان من ربح فہو بینہما علی قدر روٴس أموالہما وما کان من وضیعة أو تبعة فہو کذلک․ ولا خلاف أن اشتراط الوضیعة بخلاف قدر رأس المال باطل (فتح القدیر: ۶/ ۱۴۶الشرطة ط: زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند