• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 155505

    عنوان: ادھار پٹرول فروخت کرکے ٹوٹل بل کا ایک یا دو فیصد مزید وصول کرنے کا حکم

    سوال: محترم مفتیان کرام ، آپ سے چندہ ماہ پہلے دوسوالات کے جواب دریافت کئے تھے ،ایک سوال کے جواب سے مکمل اطمینان ہے اور دوسرے سوال کے جواب سے مکمل اطمینان نہیں ۔ اسلئے ضروری تھا کہ دوسرے سوال کی مزید وضاحت کی جائے ۔ دوسرے سوال میں بتایا تھا میں نے کہ " سوال نمبر (۲) دوسری طرح کا ادھار ہم اپنے پٹرول پمپ کے ذاتی کھاتے سے دیتے ہیں یعنی مخصوص رقم کا ذپازٹ رکھ کر کھاتے دار کو پٹرول لینے کے لئے کتاب دے دیتے ہیں جس میں وہ چیک بک کی طرح انداجات کرکے ہمیں دیتا ہے جس کے مطابق ہم اسے پٹرول وغیرہ ایک مہینے کے ادھار پر فراہم کردیتے ہیں ۔ مہینہ گذرنے کے بعد گزشتہ ماہ کا مکمل حساب بل کی صورت میں پارٹی کو دیتے ہیں جس کی وہ چند دن میں یا بعض اوقات کئی کئی دن بعد ادائیگی کرتا ہے جس پر ہم کوئی بھی لیٹ فیس نہیں لیتے ، ہاں کھاتا کھولتے وقت ادھار کی شرائط میں ایک تو مخصوص رقم ڈپازٹ کی صورت میں رکھتے ہیں اور ٹوٹل بل کی رقم پر جیسے 10000 روپیہ کے بل پر 2فیصد یعنی 200 روپیہ یا 1فیصد یعنی 100 روپیہ چارج کرتے ہیں ۔ یہ جو ہم 1 یا دو فیصد سروس چارج کی مد میں وصول کرتے ہیں یہ جائز ہے یا نہیں ؟ " لنک http://darulifta-deoband.com/home/en/Interest--Insurance/153391 مندرجہ بالا تمام سوال میں جو بات قابل اظہار رہ گئی تھی وہ یہ کہ ہم جس پارٹی کو ادھار دیتے ہیں اس کا(1) حساب کتاب پورا وقت رکھنا (2)پارٹی کو وہ سلپ بک دینا جس کی پرچیوں کے زریعے پارٹی پٹرول لیتی ہے ،جوکہ ایک ماہ میں کئی کتابیں استعمال کرتے ہیں (3)مہینہ پورا ہونے پر پارٹی کا بل تیار کرنا ،جس کے لئے افرادی محنت اور پرنٹنگ وغیرہ کا خرچہ (4) بل تیار ہونے پر کورئیر کے زریعے سے بل بھیجنا مندرجہ بالا درج شدہ تمام اخراجات کو ہم سروس چارجز کے نام سے شمار کرتے ہیں اب تک۔ اور ان کی وصولی کا زریعہ وہی ایک یا دو فیصد ٹوٹل رقم پر چارج کرنا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان تمام اخراجات کی وصولی کو سروس چارج کا نام دے کر وصول کرسکتے ہیں ؟ یا پھر ہمیں اپنا طریقہ کاروبار ہی تبدیل کرنا پڑے گا اور سروس چارج کے نام پر وصولی کی بجائے ہر سلپ بک اور ہر بل کے چارجز الگ سے درج کرکے وصول کریں ؟یا ہر ہر لیٹر کی قیمت کو ،خرچہ کے حساب سے بڑھا کر درج کریں جیسا کہ آپ نے جواب میں بتایا کہ 75 اصل نقد قیمت ہو اور ادھار دیتے ہوئے اسے 79 مقرر کرلیا جائے ؟ آپ سے درخواست ھے کہ مندرجہ بالا مندرجات کی مزید وضاحت فرمادیں تاکہ ہم مکمل اطمینان حاصل کر کے شریعت کے مطابق کاروبار کرسکیں۔

    جواب نمبر: 155505

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:366-159T/N=1/1440

    ادھار پٹرول کی خرید وفروخت میں آپ بائع اورخریدنے والی پارٹی مشتری ہوتی ہے اور آپ ادھار کی صورت میں جو مزید اخراجات برداشت کرتے ہیں، وہ عاقد (بائع) کی حیثیت سے برداشت کرتے ہیں، ثالث کی حیثیت سے نہیں؛ اس لیے آپ سروس چارجز کے نام پر یہ اخراجات وصول نہیں کرسکتے جیسا کہ سابقہ فتوے میں بھی لکھا گیا، نیز سوال میں مذکور طریقہ پر آپ وہ اخراجات الگ سے بھی وصول نہیں کرسکتے؛ کیوں یہ سب ادھار معاملے کا جزو ہے؛ البتہ آپ ادھار اور متعلقہ اخراجات کی وجہ سے پٹرول کا ریٹ بڑھادیں تو اس طرح نفع کے ساتھ تمام اخراجات وصول کرنے میں شرعاً کچھ حرج نہیں اور عام مارکیٹ کا وصول بھی یہی ہے۔

     مستفاد: قولہ: ”فأجرتہ علی البائع“: ولیس لہ أخذ شیٴ من المشتري؛ لأنہ ھو العاقد حقیقة، شرح الوھبانیة، وظاھرہ أنہ لا یعتبر العرف ھنا (رد المحتار، کتاب البیوع، قبیل باب خیار الشرط، ۷: ۹۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند