متفرقات >> حلال و حرام
سوال نمبر: 15548
سوال
یہ ہے کہ آج کل ہمارے یہاں ممبئی میں رہنے کے لیے گھر کرایہ سے لیتے ہیں جس کی
صورت یہ ہوتی ہے کہ تیس سے چالیس ہزار روپیہ ڈپوزٹ رکھ کر ماہانہ کرائے طے کئے
جاتے ہیں یہ تو عام ہے۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ ایک لاکھ سے دولاکھ تک ڈپوزٹ رکھ
کر کرایہ نہیں دیا جاتا۔ مجھے پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس صورت میں یہ رہن تو نہیں ہوا
؟اورکیا رہن رکھی ہوئی چیز کا استعمال جائز ہے؟ جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت
فرمائیں۔
سوال
یہ ہے کہ آج کل ہمارے یہاں ممبئی میں رہنے کے لیے گھر کرایہ سے لیتے ہیں جس کی
صورت یہ ہوتی ہے کہ تیس سے چالیس ہزار روپیہ ڈپوزٹ رکھ کر ماہانہ کرائے طے کئے
جاتے ہیں یہ تو عام ہے۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ ایک لاکھ سے دولاکھ تک ڈپوزٹ رکھ
کر کرایہ نہیں دیا جاتا۔ مجھے پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس صورت میں یہ رہن تو نہیں ہوا
؟اورکیا رہن رکھی ہوئی چیز کا استعمال جائز ہے؟ جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت
فرمائیں۔
جواب نمبر: 15548
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ب):1424=186tb-11/1430
پہلی شکل درست ہے اور دوسری شکل رہن جیسی معلوم ہوتی ہے، اس طرح مکان سے انتفاع درست نہیں ہے یہ سود ہے ۔ اس لیے اس دوسری شکل سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند