• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 153658

    عنوان: کتے کے کاٹے ہوئے بکرے کا بیچنا جائز ہے یا نہیں؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ میں.. ایک شخص کاروباری مقصد سے بکریاں پالتاہے ، ان بکریوں کو کتے کاٹنے کا خطرہ ہے ، ایک آدھ بار کاٹ بھی چکے ہیں، ان کاٹے ہوئے بکریوں کو انجکشن دیکر علاج کیا جاتاہے جس سے ان کے بچنے کی امید ہے ، اب دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ ۱ن کاٹے ہوئے بکریوں کا بیچنا ( اطلاع کئے بغیر) جائز ہے یا نہیں؟ ملحوظ ہو کہ انجکشن کا اثر اترنے کے بعد اس بکری کی حالت (بچنا یا مرنا) بین بین ہے ۔ ۲. کتوں کو مارنے کے لئے زہریلی دواکا استعمال کرنا کیسا ہے ؟ جبکہ ان کتوں کے علاوہ دوسرے کتوں کے اس دوا کے کھانے کا احتمال ہے ۔ بینوا توجروا.

    جواب نمبر: 153658

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1278-1204/sd=12/1438

     جن بکریوں کو کتے نے کاٹا ہے اور انجیکشن کے بعد اُن کا زندہ رہنا یا مرنا دونو ں محتمل ہے ، تو ایسی بکریوں کو فروخت کرنے سے پہلے بائع کے لیے خریدار سے عیب کی تفصیلات بتانا ضروری ہے ،عیب چھپا کر فروخت کرنا ناجائز اور گناہ ہے ، احادیث میں اس پر وعید وارد ہوئی ہے ۔

    عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لا یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ بَاعَ مِنْ أَخِیہِ بَیْعًا فِیہِ عَیْبٌ إِلا بَیَّنَہُ لَہُ.ابن ماجہ ۔ الْفَصْلُ الأَوَّلُ , أَنَّ مَنْ عَلِمَ بِسِلْعَتِہِ عَیْبًا , لَمْ یَجُزْ بَیْعُہَا , حَتَّی یُبَیِّنَہُ لِلْمُشْتَرِی . فَإِنْ لَمْ یُبَیِّنْہُ فَہُوَ آثِمٌ عَاصٍ . نَصَّ عَلَیْہِ أَحْمَدُ ; لِمَا رَوَی حَکِیمُ بْنُ حِزَامٍ , عَنْ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم أَنَّہُ قَالَ { : الْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا , فَإِنْ صَدَقَا وَبَیَّنَا بُورِکَ لَہُمَا , وَإِنْ کَذِبَا وَکَتَمَا مُحِقَ بَرَکَةُ بَیْعِہِمَا } مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ . وَقَالَ علیہ السلام { : الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ , لا یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ بَاعَ مِنْ أَخِیہِ بَیْعًا إلا بَیَّنَہُ لَہُ } . وَقَالَ { : مَنْ بَاعَ عَیْبًا لَمْ یُبَیِّنْہُ , لَمْ یَزَلْ فِی مَقْتِ اللَّہِ , وَلَمْ تَزَلْ الْمَلائِکَةُ تَلْعَنُہُ } . رَوَاہُمَا ابْنُ مَاجَہْ . وَرَوَی التِّرْمِذِیُّ أَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ : { مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا } . وَقَالَ : ہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَیْہِ عِنْد أَہْل الْعِلْمِ , کَرِہُوا الْغِشَّ , وَقَالُوا : ہُوَ حَرَامٌ . فَإِنْ بَاعَہُ , وَلَمْ یُبَیِّنْہُ , فَالْبَیْعُ صَحِیحٌ فِی قَوْلِ أَکْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ , مِنْہُمْ مَالِکٌ , وَأَبُو حَنِیفَةَ , وَالشَّافِعِیُّ۔---(المغنی لابن قدامة 4 / 108 ط مکتبة القاہرة)--- ( ۲) اگر کتوں سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، تو زہریلی دواء کے ذریعے مارنے کے گنجائش ہے ، خواہ دوسرے کتے کا بھی دوا کھانے کا احتمال ہو ۔قریة فیہا کلابٌ کثیرةٌ ولأہل القریة منہا ضررٌ یوٴمر أرباب الکلاب بأن یقتلوا کلابہم؛ لأن دفع الضرر واجب، وإن أبوا لزمہم القاضی۔ (تکملة: البحر الرائق ۸/۲۰۴(وجاز قتل ما یضر منہا ککلب عقورٍ وہرة تضر، ویذبحہا: أی الہرة ذبحًا، ولا یضر بہا؛ لأنہ لا یفید ولا یحرقہا (الدر المختار) وقال الشامی تحت قولہ: وہرة تضر: کما إذا کانت تأکل الحمام والدجاج۔ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الخنثیٰ / مسائل شتی ۶/۷۵۲وقال الحصکفی رحمہ اللّٰہ تعالیٰ: لا یحل قتل ما لا یوٴذی، ولذا قالوا: لم یحل قتل الکلب الأہلی إذا لم یوٴذ، والأمر بقتل الکلاب منسوخ، کما فی الفتح: أی إذ لم تضر (الدر المختار) وقال العلامة الشامی رحمہ اللّٰہ تعالیٰ: قولہ: أی إذا لم تضر، تقیید للنسخ، ذکرہ فی النہر أخذًا مما فی الملتقط: إذا کثرت الکلاب فی قریة وأضرت بأہلہا، أمر أربابہا بقتلہا، فإن أبوا، رفع الأمر إلی القاضی حتی یأمر بذٰلک۔ (الدر المختار مع الشامی، کتاب الحج / باب الجنایات ،الفتاویٰ الہندیة / الباب الحادی والعشرون فیما یسع من جراحات بنی آدم ۵/۳۶۰زکریا، الفتاویٰ البزازیة علی ہامش الہندیة، کتاب الکراہیة / الثامن فی القتل ۶/۳۷۰زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند