متفرقات >> حلال و حرام
سوال نمبر: 153523
جواب نمبر: 153523
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1306-1379/N=1/1439
(۱): اسلام میں سود دینا اور سود لینا دونوں حرام وناجائز ہیں اور احادیث میں سود لینے والے اور سود دینے والے دونوں پر لعنت آئی ہے؛ اس لیے کوئی کاروبار شروع کرنے کے لیے بینک سے لون لینا یا سود لینے کی غرض سے بینک میں پیسے جمع کرنا ناجائز وحرام ہے، آپ ایسا ہرگز نہ کریں؛ البتہ اگر کسی نے ماضی میں مسئلہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے بینک سے لون لیا، جس میں اسے سود بھرنا پڑا اور بعد میں قانونی مجبوری کی وجہ سے اسی بینک میں کچھ پیسے رکھنے پڑے تو ایسی صورت میں جمع شدہ پیسوں پر ملنے والے سود میں سے ماضی میں اسی بینک میں جو سود بھرا گیا، اس کے بہ قدر پیسے اپنے استعمال میں لانا درست ہے،یہ ایسا ہے جیسے کسی کاجائز وحلال پیسہ کسی نے غیر شرعی طریقہ پر لیا، پھر اس نے کسی دوسرے راستہ سے اپنا پیسہ واپس لے لیا(امداد المفتین ص ۷۰۶، سوال: ۷۴۳، مطبوعہ: دار الاشاعت کراچی)۔
قال اللّٰہ تعالی:وأحل اللہ البیع وحرم الربا الآیة (البقرة: ۲۷۵)،عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء (الصحیح لمسلم، ۲: ۷۲، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)،الربا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضة (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب البیوع، باب الربا، ۷: ۳۹۸- ۴۰۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، ، مستفاد: فإذا ظفر بمال مدیونہ لہ الأخذ دیانة؛ بل لہ الأخذ من خلاف الجنس (رد المحتار، کتاب السرقة، مطلب في أخذ الدائن من مال مدیونہ من خلاف جنسہ، ۶: ۱۵۷)۔
(۲): کسی سیاسی پارٹی کو فنڈنگ کے لیے سود کا پیسہ دینا جائز نہیں، یہ سودکا مصرف نہیں ہے۔
ویر دونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ ، فصل فی البیع ،۹: ۵۵۳)، قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقہائنا کالہدایة وغیرہا: أن من ملک بملک خبیث، ولم یمکنہ الرد إلی المالک، فسبیلہ التصدقُ علی الفقراء………،قال:والظاھر إن المتصدق بمثلہ ینبغي أن ینوي بہ فراغ ذمتہ، ولا یرجو بہ المثوبة (معارف السنن، أبواب الطہارة، باب ما جاء: لا تقبل صلاة بغیر طہور، ۱: ۳۴، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔
(۳):شریعت میں دفع ظلم کے لیے رشوت دینے کی اجازت ہے ، یعنی: اس صورت میں رشوت دینے والے کو رشوت کا گناہ نہ ہوگا؛ اس لیے اگر آپ گوشت کا جائز کاروبار کرتے ہیں اور گوشت کی سپلائی میں غنڈوں کے شر سے بچنے کے لیے انھیں کچھ دیدیا کریں تو شرعاً اس کی اجازت ہے ؛ البتہ رشوت میں سود کی رقم دینا جائز نہیں، آپ اس مد میں غنڈوں کو کوئی دوسری رقم دیں۔
الرشوة ما یعطی لإبطال حق أو لإحقاق باطل، أما إذا أعطی لیتوصل بہ إلی حق أو لیدفع بہ عن نفسہ ظلماً فلا بأس بہ،……،قال التوربشتي:وروي أن ابن مسعودأخذ في شییٴ بأرض الحبشة،فأعطی دینارین فخلی سبیلہ (مرقاة المفاتیح، ۷: ۲۹۵، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)، وفیہ - فی المجتبی - أیضاً:دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن نفسہ ومالہ ولاستخراج حق لہ لیس برشوة، یعنی:في حق الدافع اھ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ، فصل فی البیع وغیرہ، ۹: ۶۰۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
(۴): اگر کسی جائز کام میں ناجائز رکاوٹ ڈالی جائے تو اس صورت میں بھی رکاوٹ ڈالنے والوں کو رشوت دینا جائز ہے اگرچہ لینے والوں کے لیے رشوت اس صورت میں بھی حرام ہوگی۔ اور اوپر نمبر ۳میں لکھا گیا کہ رشوت میں سود کی رقم نہیں دے سکتے ہیں؛ کیوں کہ یہ سود کا مصرف نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند