• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 153300

    عنوان: دینی پروگرام میں کھانا پینا

    سوال: اگر کوئی شخص کسی طرح کا دینی پروگرام مثلاً جلسہ کرے اور اس جلسہ میں آنے والے سبھی حضرات کو کھانا کھلائے، کیا یہ جائز ہے؟ یا پھر کوئی شخص قرآن خوانی کے لیے لوگوں کو بلائے اور اس کے ساتھ کھانے کی بھی دعوت کرے، کیا یہ جائز ہے؟

    جواب نمبر: 153300

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1217-1183/N=11/1438

     (۱، ۲): دینی اجلاس میں دور دراز سے شرکت کے لیے آنے والے مہمانان کرام کے لیے کھانے کا نظم کرنا جائز ہے؛ البتہ جلسے کے خراجات کے لیے چندہ دینے والے حضرات کے سامنے دعوت کا تذکرہ کردیا جائے یا کسی طرح بھی دعوت کا نظم ان کے علم میں آجائے ۔ اور قرآن خوانی میں دعوت کا نظم مکروہ ہے؛ کیوں کہ اس میں کم از کم اجرت کا شائبہ ضرور ہے اور قرآن خوانی پر اجرت کا معاملہ جائز نہیں( تذکرة الرشید، ۱: ۲۰۳، مطبوعہ: دار الکتاب دیوبند) ؛ بلکہ اجتماعی طور پر قرآن خوانی کا رواج بہ جائے خود قابل اصلاح ہے، اسے ترک کرنا چاہیے ( تالیفات رشیدیہ ص ۸۷،۸۸)، اگر کسی مرحوم کو ایصال ثواب کرنا ہو تو ہر شخص انفرادی طور پر کوئی بھی نیک عمل انجام دے کر مرحوم کو اس کا ثوب بخش دے، اس کے لیے لوگوں کو اکٹھا کرنے وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے۔

    والحاصلُ أن اتخاذ الطعام عند قراء ة القرآن لأجل الأکل یکرہ (رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ۳: ۱۴۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قراء ة الکافرون إلی الآخر مع الجمع مکروھة ؛لأنھا بدعة لم تنقل عن الصحابة ولا عن التابعین رضي اللہ عنھم کذا فی المحیط (الفتاوی الھندیة،کتاب الکراھیة، الباب الرابع فی الصلاة والتسبیح الخ، ۵: ۳۱۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ونقلہ عنہ مولانا العلامة محمد منظور النعماني في إمعان النظر في أذان القبر،یعنی: اذان قبر کا تحقیقی جائزہ ص۱۴)، قال حذیفة رضي اللہ عنہ: کل عادة لم یتعبدھا أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلا تعبدوھا فإن الأول لم یدع للآخر مقالاً فاتقوا اللہ یا معشر القراء وخذوا بطریق من کان قبلکم ونحوہ لابن مسعود أیضا (الموافقات، ۳: ۵۳)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند