متفرقات >> حلال و حرام
سوال نمبر: 150846
جواب نمبر: 150846
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 853-851/N=9/1438
حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ، حضرت امام شافعیرحمہ اللہ اور جمہور علمائے امت کے نزدیک اونٹ، گائے ، بھینس وغیرہ ان تمام جانوروں کا پیشاب حرام وناپاک ہے، جن کا گوشت کھایا جاتا ہے، اور اس پر احادیث سے متعدد دلائل قائم ہیں اور سوال میں جس حدیث کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جس میں بعض روایات کے مطابق قبیلہ عرینہ والوں کو ایک بیماری میں بہ طور دوا اونٹ کا دودھ اور پیشاب پینے کی اجازت دی گئی تھی و ہ علی الاطلاق معمول بہ نہیں ہے، جس کی تفصیل شروح حدیث کی کتابوں ( جیسے: عمدة القاری، فتح الباری، فتح الملہم اور معارف السنن وغیرہ) میں موجود ہے؛ اس لیے ہندو لوگ جو گائے کا پیشاب پیتے ہیں ، وہ اسلام کی صحیح تعلیمات سے بالکل ناواقف وبے خبر ہیں، آپ ان کے بہکاوے میں نہ آئیں۔
قالوا: أبوال الإبل نجسة، وحکمہا حکم دمائہا لا حکم لحومہا، وأراد بہم أبا حنیفة وأبا یوسف والشافعي، وقال ابن حزم في المحلي: والبول کلہ من کل حیوان: إنسان أو غیر إنسان، فما یوٴکل لحمہ أو لا یوٴکل لحمہ کذٰلک، أو من طائر یوٴکل لحمہ أو لا یوٴکل لحمہ فکل ذٰلک حرام أکلہ وشربہ إلا لضرورة تداوي أو إکراہ أو جوع أو عطش فقط۔ وفرض اجتنابہ في الطہارة والصلاة إلا ما لا یمکن التحفظ منہ إلا بحرج، فہو معفو عنہ … وقالوا: أما ما رویتموہ من حدیث العرنیین فذٰلک إنما کان للضرورة، فلیس في ذٰلک دلیل أنہ مباح في غیر حال الضرورة؛ لأنا قد رأینا أشیاء أبیحت في الضرورات ولم تبح في غیر الضرورات (نخب الأفکار في تنقیح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار، کتاب الطہارة، باب حکم بول مایوٴکل لحمہ ۲: ۳۸۲، ط: وزارة الأوقاف والشوٴون الإسلامیة، دولة قطر) ، وانظر الدر المختار ورد المحتار (کتاب الطھارة، باب المیاہ، ۱: ۳۶۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند) أیضاً۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند