• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 150229

    عنوان: سرکاری ملازمین کی تنخواہ سے جی پی فنڈ کے نام سے ہونے والی ماہانہ کٹوتی پر لگنے والا سالانہ منافع

    سوال: سوال: کیا سرکاری ملازمین کی تنخواہ سے جی پی فنڈ کے نام سے ہونے والی ماہانہ کٹوتی پر لگنے والا سالانہ منافع ملازم کے لیے جائز ہے اگرچہ:۔ 1۔ فنڈ کی کٹوتی کی مقدار ہر سکیل کے لئے مختلف مگر طے شدہ ہو۔ اور اس میں ملازم اپنی خواہش سے اس کا خاتمہ، تبدیلی یا کمی بیشی نہ کروا سکتا ہو۔ 2۔ ملازم فنڈ میں سے اگر چاہے تو فنڈ کی جمع شدہ کل رقم کا 80 فیصد اپنے استعمال کے لیے نکلوا سکتا ہے ۔ لی ہوئی رقم ملازم کی 45 سال کی عمر تک لازمی قابل واپسی قرار پاتی ہے جو کہ ملازم کی خواہش کے مطابق 12 سے 48 اقساط میں ہر ماہ کی تنخواہ سے کاٹی جاتی ہے ۔ جبکہ ملازم کی 45 سال کی عمر کے بعد قابل واپسی ہونا یا نہ ہونا ملازم کی مرضی پر منحصر ہے ۔ سالانہ منافع لینے کی صورت میں لیے ہوئے قابل واپسی فنڈ پر اقساط کی واپسی کے عرصہ میں اکاؤنٹ میں پڑے ہونے کی صورت میں جو منافع لگنا تھا وہ منافع بھی اضافی رقم(سود) کی صورت میں ہر قسط میں ادا کرنا پڑتا ہے ۔ 3۔ کاٹی جانے والی رقم کا مصرف(جو کہ ملازم کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے ) اور فنڈ پر لگنے والے منافع کا ماخذ بھی معلوم نہ ہوں۔ 4۔ لیکن فنڈ پر لگنے والا سالانہ منافع ملازم اپنی خواہش سے چاہے تو ختم بھی کروا سکتا ہے ۔ اس صورت میں نکلوائے جانے والے قابل واپسی فنڈ پر اضافی رقم ادا نہیں کرنی پڑتی۔ 5۔ کچھ احباب اس طرح کرتے ہیں کہ فنڈ پر منافع لیتے ہیں پر جب نکلوانا ہوتا ہے تو نکلوانے سے پہلے اس پر لگنے والا منافع ختم کروا دیتے ہیں جس سے وہ اپنی اثنا میں اضافی کٹوتی سے بچ جاتے ہیں۔کٹوتی ختم ہونے کے بعد وہ اپنا سالانہ منافع بحال کروا دیتے ہیں۔ تو کیا ایسا کرنا سود کو حلال کرنے کے حیلے میں داخل نہیں ہے ؟ براہ کرم جواب عنایت فرمائیں۔ اس سے پہلے کے جو فتوی دستیاب ہیں ان میں درج بالا تمام شرائط موجود نہ ہونے کی وجہ سے دوبارہ سوال کی ضرورت محسوس کی ہے ۔

    جواب نمبر: 150229

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 692-716/N=7/1438

    (۱- ۵): سوال میں جی پی فنڈ کی جو صورت ذکر کی گئی ہے، یہ جبری (غیر اختیاری) فنڈ ہے، یعنی: ہر ملازم کی تنخواہ سے اس کے اسکیل کے حساب سے ایک متعینہ فیصد کی کٹوتی لازم وضروری ہے، اس میں ملازم کا کچھ اختیار نہیں ہوتا، نہ وہ اس کٹوتی کو بند کراسکتا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی تبدیلی (کمی بیشی) کراسکتا ہے۔ اور اس طرح کے جبری فنڈ کے متعلق تمام اکابر مفتیان کرام کی متفقہ تحقیق یہ ہے کہ جبری فنڈ پر،سالانہ جو اضافے کیے جاتے ہیں، وہ شرعاً سود میں داخل نہیں ہیں خواہ اس وجہ سے کہ فنڈ کی رقم قبضہ سے پہلے ملازم کی ملک ہی نہیں ہوتی اوروضع کردہ رقم پر طے شدہ اضافات از قبیل تبرع ہیں (جیسا کہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبرحمہ اللہ  کی یہی تحقیق ہے)یا فنڈ کی رقم قبضہ سے پہلے ملازم کی ملک ہوجاتی ہے اور اصل کی طرح اضافے بھی اجرت عمل اور تنخواہ کا حصہ ہوتے ہیں اور تاجیل کی وجہ سے یہ اضافے ہوتے ہیں (جیساکہ حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویرحمہ اللہ  کی یہی تحقیق ہے)؛ اس لیے سوال میں مذکور فنڈ میں جو کچھ رقم جمع ہوتی ہے اور جو اضافے ہوتے ہیں، وہ سب از روئے شرع جائز ہیں، اس میں کچھ شک شبہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور اگر کوئی شخص سالانہ اضافے بند کرادیتا ہے تو پہلے قول کے مطابق یہ تبرع کی قبولیت سے انکار ہے اور دوسرے قول کے مطابق تاجیل کی صورت میں تنخواہ کا اضافی حصہ واپس کرنا ہے یا اسے نہ لینا ہے۔ اور آدمی کو شرعاً اس کا اختیار ہے کہ وہ تبرع قبول نہ کرے یا تنخواہ کا کچھ حصہ ادارے کو واپس کردے یا اضافہ قبول نہ کرے ؛ اس لیے شرعاً منافع نہ لینے والے کا عمل بھی درست ہے۔ اور فنڈ سے ۸۰/ فیصد تک جو رقم لینے کا اختیار ہے ، یہ دونوں قولوں کے مطابق قرض کی شکل ہے ؛ اس لیے اس پر جو مزید وصول کیا جاتا ہے ، اس میں بہ ظاہر سود کا شائبہ ہے؛ اس لیے جو ملازم فنڈ نکلوانے سے پہلے اس پر ملنے والا اضافہ بند کرادیتے ہیں اور اضافی کٹوتی کا زمانہ ختم ہوجاتا ہے تو وہ سالانہ اضافہ بحال کرالیتے ہیں تو اس میں شرعاً کچھ حرج نہیں، اسے سود کو حلال کرنے کا حیلہ نہیں کہہ سکتے؛ بلکہ اس کا یہ عمل بہتر ہے ۔ اور ملازم کے فنڈ کی رقم ادرہ کہاں لگاتا ہے؟ اسے جاننے اور اس کی تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں ؛ البتہ اگر ادارہ اضافے خالص سودی رقم یا کسی اور حرام مال سے دیتی ہو اور اس کی صحیح تحقیق ہوجائے تو اس پر غور کیا جاسکتا ہے ورنہ ہمیں بلا وجہ شک شبہ کرنے کی ضرورت نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند