متفرقات >> حلال و حرام
سوال نمبر: 14333
میں جاننا
چاہتاہوں کہ سروس کے درمیان ہر مہینہ تنخواہ سے بیمہ کی ایک متعین رقم گورنمنٹ کی
طرف سے کاٹی جاتی ہے جس پر ہمارا کوئی اختیار نہیں ہوتا ہے۔ وہ رقم صرف ریٹائرمینٹ
پر یا موت ہونے پر ہی ملتی ہے جس میں سود شامل ہوتا ہے لیکن یہ پتہ نہیں ہوتا ہے
کہ اس میں کتنا سود شامل ہے۔ کیا ایسی بیمہ کی رقم ریٹائرمنٹ پر جب ملتی ہے تو وہ
جائز ہے یا نہیں اور اس رقم کا استعمال حج میں کر سکتے ہیں یا نہیں؟
میں جاننا
چاہتاہوں کہ سروس کے درمیان ہر مہینہ تنخواہ سے بیمہ کی ایک متعین رقم گورنمنٹ کی
طرف سے کاٹی جاتی ہے جس پر ہمارا کوئی اختیار نہیں ہوتا ہے۔ وہ رقم صرف ریٹائرمینٹ
پر یا موت ہونے پر ہی ملتی ہے جس میں سود شامل ہوتا ہے لیکن یہ پتہ نہیں ہوتا ہے
کہ اس میں کتنا سود شامل ہے۔ کیا ایسی بیمہ کی رقم ریٹائرمنٹ پر جب ملتی ہے تو وہ
جائز ہے یا نہیں اور اس رقم کا استعمال حج میں کر سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب نمبر: 14333
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1511=1202/ھ
جو رقم بیمہ کے عنوان سے حکومت کاٹتی ہے اور ملازم کو اس پر اختیار نہیں ہوتا پھر سود کے نام سے اضافہ کرتی ہے، یہ دونوں رقمیں بحق ملازم جائز ہیں، ان پر شرعی تعریف سود کی صادق نہیں آتی، پس ریٹائرمنٹ پر جب یہ رقم ملے گی تو اس کا استعمال ملازم کو جائز ہے، اور دیگر امور میں خرچ کرلے یا سفر حج میں اس کو لگادے ہرطرح درست ہے، یہی حکم موت پر ملنے کا ہے یعنی بحق ورثہ وہ رقم جائز اور حلال ہے اور ورثہ اس رقم کے علی قدر حصصہم جس قدر ہوں گے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند