• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 11246

    عنوان:

    ایک مسلمان ٹیچر جو کو ایک سرکاری اسکول میں پڑھاتا ہے اور اپنی ڈیوٹی ساڑھے آٹھ بجے صبح سے ڈھائی بجے دوپہر تک کرتاہے۔ اس دوران وہ درسگاہ میں سوتا ہے، قرآن شریف پڑھتا ہے، اور اسکول اوراپنے شعبہ سے غیر متعلق اشخاص سے ٹیلی فون پر بات کرتا ہے۔ اور اس دوران ایسے لوگوں سے ملاقات کرتا ہے جو کہ صرف اسی کے ماننے والے ہیں۔ وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ مراقبہ بھی کرتا ہے ۔وہ طلبا کونماز پڑھنے کے لیے کہتا ہے لیکن طلبا پوری نماز نہیں جانتے ہیں اور طلباء اپنی اسلامی معلومات اور عمل کے بارے میں مہارت نہیں رکھتے ہیں جو کہ وہ(ٹیچرصاحب) پڑھاتے ہیں۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اس صورت میں ان کی تنخواہ کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

    سوال:

    ایک مسلمان ٹیچر جو کو ایک سرکاری اسکول میں پڑھاتا ہے اور اپنی ڈیوٹی ساڑھے آٹھ بجے صبح سے ڈھائی بجے دوپہر تک کرتاہے۔ اس دوران وہ درسگاہ میں سوتا ہے، قرآن شریف پڑھتا ہے، اور اسکول اوراپنے شعبہ سے غیر متعلق اشخاص سے ٹیلی فون پر بات کرتا ہے۔ اور اس دوران ایسے لوگوں سے ملاقات کرتا ہے جو کہ صرف اسی کے ماننے والے ہیں۔ وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ مراقبہ بھی کرتا ہے ۔وہ طلبا کونماز پڑھنے کے لیے کہتا ہے لیکن طلبا پوری نماز نہیں جانتے ہیں اور طلباء اپنی اسلامی معلومات اور عمل کے بارے میں مہارت نہیں رکھتے ہیں جو کہ وہ(ٹیچرصاحب) پڑھاتے ہیں۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اس صورت میں ان کی تنخواہ کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

    جواب نمبر: 11246

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 302=276/ب

     

    اگر وہ ٹیچر اپنی ڈیوٹی پوری انجام دیتا ہے تو اپنے خالی اوقات میں سونا، قرآن شریف پڑھنا، ٹیلیفون کرنا، مراقبہ کرنا، طلبہ کو نماز کے لیے کہنا ان سب امور کے کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کی تنخواہ بھی صحیح ہے، کوئی وہم نہ کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند