عبادات >> حج وعمرہ
سوال نمبر: 61126
جواب نمبر: 61126
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 729-729/Sd=12/1436-U (۱۔۵)حج کے فرائض، واجبات، سنن، مکروہات اور موجباتِ دم سے متعلق تفصیلات کے لیے ملاحظہ فرمائیں: غنیة الناسک:۵۵۔۶۰، انوار مناسک:۲۶۹۔۲۷۷، کتاب المسائل:۳/۱۱۵۔۱۱۸۔ (۶) اگر حاجی مفرد بالحج( حج افرادکرنے والا) ہے، تو یوم النحرمیں جمرئہ عقبہ کی رمی کے بعد حلق کرکے وہ احرام کھول سکتا ہے، رمی سے پہلے احرام کھولنا جائز نہیں ہے ، ورنہ دم لازم ہوجائے گااور قارن و متمتع رمی کے بعد قربانی بھی کریں گے، پھر حلق کرکے احرام کھولیں گے اور وقوفِ عرفہ سے پہلے سعی کے لیے احرام شرط ہے؛ البتہ وقوفِ عرفہ کے بعد سعی کے لیے احرام کا ہونا شرط نہیں ہے، بلکہ اس صورت میں احرام کے بغیر سعی مسنون ہے۔ واذا فرغ من ہذا الرمي۔۔۔فان کان مفرداً بالحج یحلق أو یقصر والحلق أفضل۔۔۔۔وان کان قارناً أو متمتعاً یجب علیہ أن یذبح ویحلق الخ( انوار مناسک، ص: ۵۲۴، بحوالہ بدائع الصنائع:۳/۱۴۷، بیروت) أما بقاء الاحرام حالة السعي، فان کان سعیہ للحج قبل الوقوف، فیشترطُ،أو بعد الوقوف فلا یشترطُ؛ بل ویسن عدمہ؛ فانہ یسن الترتیبُ بین الرمي والحلق و بین الطواف والسعي۔( غنیة الناسک في بغیة المناسک،ص: ۱۷۲، فصل في رکن السعی وشرائطہ، ط: مکتبہ یادگا شیخ، سہارنبور) طواف زیارت سے پہلے احرام کی حالت سے گذرنا شرط ہے؛لیکن حالت احرام میں طواف زیارت کرنا شرط نہیں ہے؛بلکہ احرام کے بغیر ہی طواف زیارت کرنا مسنون ہے،چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم النحر میں اولاً جمرئہ عقبہ کی رمی فرمائی تھی، پھر قربانی کرکے حلق کرواکر خوشبو وغیرہ لگائی تھی، اُس کے بعد اُسی دن ظہر سے قبل طواف زیارت کیا تھا۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ حج: مرتبہ: مولانا ارشاد قاسمی،کتاب المسائل:۳/۳۴۲، ط: فرید بک ڈپو، دہلی،انوار مناسک، ص: ۳۳۷، ط: مکتبہ یوسفیہ ، دیوبند) (۷) جی ہاں!عورت پر حج فرض ہونے کے لیے سفرِ حج میں محرم کا ساتھ جانا شرط ہے۔ (۸)اگر عورت کے پاس اپنے خرچ کے ساتھ ساتھ اپنے شوہر یا محرم کا بھی سفر حج کا خرچ موجود ہو، تو اُس کے لیے شوہر یا محرم کے ساتھ حج کرنا فرض ہے،صورت مسووٴلہ میں اگر شوہر کے اندر بیوی کے خرچے سے بھی دوبارہ حج کے لیے جانے کی استطاعت نہیں ہے، نیز کوئی دوسرے محرم کا بھی نظم نہیں ہے، تو ایسی صورت میں عورت پر فی الفور حج کی ادئے گی ضروری نہیں ہے ، عورت کو محرم کے انتظام ہونے تک حج کو موٴخر کر دینا چاہیے، اِس تاخیر سے اُس پر شرعا کوئی گناہ نہیں ہوگا، حتی کہ اگر اسی انتظار میں موت کا وقت آجائے ، تو اس کو چاہیے کہ حج بدل کی وصیت کر دے اور اگر اپنے خرچ کے ساتھ محرم کے سفر کا خرچ نہیں ہے، تو ایسی صورت میں اُس پر حج فرض ہی نہیں ہوگا۔ قال الکاسانی: و أما الذي یختص النساء، فشرطان: أحدہما :أن یکون معہا زوجہاأو محرم لہا ، فان لم یوجد أحدہما لا یجبُ علیہا الحج و ہذا عندنا۔۔۔ الخ ( بدائع الصنائع: ۲/۱۲۳، بیروت)قال الحصکفي:ومع زوج أو محرم مع وجوب النفقة لمحرمہا علیہا لأنہ محبوس علیہا۔ قال ابن عابدین:قولہ: (مع وجوب النفقةالخ)أي: فیشترطُ أن تکون قادرةً علی نفقتہا و نفقتہ۔( الدر المختار مع رد المحتار: ۳/۴۶۴، ط: زکریا، دیوبند، امداد الفتاوی:۲/۱۵۶، کتاب الحج، ط: زکریا، دیوبند) (۹) حج سے متعلق خاص عورتوں کے مسائل کے سلسلے میں مفتی عبد الرحمان کوثر ابن حضرت مولانا عاشق الہی صاحب بلند شہری کی کتاب :” خواتین کے مسائل حج و عمرہ “ملاحظہ فرمائیں؛ نیز انوار مناسک اور کتاب المسائل میں بھی حج سے متعلق عورتوں کے مسائل مستقلاً بیان کیے گئے ہیں، ملاحظہ فرمالیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند