• عبادات >> حج وعمرہ

    سوال نمبر: 61123

    عنوان: ہماری کمپنی ” توسیع مکہ حرم “ میں کام کرتی ہے اور میں ریاض میں ملازم ہوں، پچھلے سال ایک میٹنگ کے لئے مکہ جانا ہواتھا ، عمرہ کی کوئی نیت نہیں تھی،اور فلائٹ سے جدہ پر اتر گیا، اور وہاں سے حرم شریف جاکر میٹنگ میں شرکت کی اور پھر دوبارہ جدہ آگیا ، پھر فلائٹ سے اسی رات ریاض آگیا ، اب مجھے یہ بتائیں کہ کیا مجھ پر دم ہوگیا؟

    سوال: (۱) ہماری کمپنی ” توسیع مکہ حرم “ میں کام کرتی ہے اور میں ریاض میں ملازم ہوں، پچھلے سال ایک میٹنگ کے لئے مکہ جانا ہواتھا ، عمرہ کی کوئی نیت نہیں تھی،اور فلائٹ سے جدہ پر اتر گیا، اور وہاں سے حرم شریف جاکر میٹنگ میں شرکت کی اور پھر دوبارہ جدہ آگیا ، پھر فلائٹ سے اسی رات ریاض آگیا ، اب مجھے یہ بتائیں کہ کیا مجھ پر دم ہوگیا؟ (۲) اور کیا میں ریاض کے اندر رہنے کی وجہ سے آفاقی شخص ہوں یا نہیں؟ (۳) میں نے سنا ہے کہ ریاض والوں کے لیے اگر جدہ میں تین دن قیام کی صورت میں جدہ ہی میقات کے حکم میں جاتی ہے ، کیا یہ صحیح ہے؟پھر صحیح بات کیا ہے؟کتنے دن قیام کے بعد جدہ سے احرام باندھ سکتے ہیں؟ (۴) کیا ریاض بھی حل کے حدود میں داخل ہے؟ جیسا کہ میں نے سنا ہے کہ جدہ حل میں داخل ہے اور حج کے زمانے میں ان کا عمرہ کرنا مکروہ ہے، حل کے حدود کیا ہیں؟جزاک اللہ

    جواب نمبر: 61123

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 726-726/Sd=12/1436-U (۱) آفاقی شخص کا اگر حدود حرم میں جانے کا ارادہ ہو خواہ اُس کا سفر کسی بھی مقصد سے ہو اور وہ میقات سے احرام باندھے بغیر گذر جائے ، تو اُس پر حج یا عمرے کی ادائگی اور احرام باندھنے کے لیے میقات کی طرف لوٹنا واجب ہوجائے گا اور بغیر احرام کے گذرنے کی وجہ سے ایک دم بھی واجب ہوگا ، لہذا صورت مسوٴولہ میں حرم شریف جانے کی وجہ سے آپ پر حج یا عمرہ کرنا واجب ہوگیا اور میقات سے ا حرام کی حالت کے بغیر گذر نے کی وجہ سے دم بھی واجب ہوگیا ۔آفاقي مسلم مکلف أراد دخول مکة أو الحرم ولو لتجارة أو سیاحة، وجاوز آخر مواقیتہ غیر محرم ، ةم أحرم أو لم یحرم ، أثم و لزمہ دم وعلیہ عود الی میقاتہ الذي جاوزہ۔۔۔الخ۔( غنیة الناسک ،ص:۷۵،باب مجاوزة المیقات بغیر احرام، فصل في مجاوزة الآفاقي وقتہ ،ط:مکتبہ یادگا شیخ، سہارنبور) ومن دخل أي من أہل الآفاق مکة أو الحرم بغیر احرام، فعلیہ أحد النسکین، أي من الحج و العمرة، وکذا علیہ دم المجاوزة أو العود ۔( مناسک ملا علي القاري، ص: ۸۷، ط: ادارة القرآن کراچي) قال الکاساني :لو أراد بمجاوزة ہذہ المواقیت دخول مکة ، لا یجوز لہ أن یجاوزہا الا محرماً سواء أراد بدخول مکة النسک من الحج أو العمرة أو التجارة أو حاجة أخری عندنا۔۔۔الخ( بدائع الصنائع:۲/۳۷۱، زکریا) (۲) جی ہاں!آپ آفاقی شخص ہیں۔ (۳) اگر ریاض والے ”جدہ“ ایسے راستے سے پہنچیں، جس میں اُن کا گذر پانچ متعینہ مواقیت میں سے کسی عینِ میقات سے نہ ہو، تو وہ جدہ سے احرام باندھ سکتے ہیں ، پہلے سے اُن کے لیے احرام باندھنا لازم نہیں ہے اور اگر ریاض والے کسی عین میقات سے گذر کر جدہ پہنچیں، تو اُن کے لیے عینِ میقات ہی سے احرام باندھنا ضروری ہوگا ، اُن کے لیے جدہ میقات نہیں ہوگا؛ اس لیے کہ عینِ میقات سے گذرنے والے کے لیے بعد میں محاذات سے گذرنے کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور ”جدہ“ عینِ میقات نہیں؛ بلکہ محاذات یا مسافت کے اعتبار سے میقات کے حکم میں ہے۔”جدہ“ سے احرام باندھنے کے جواز و عدم جواز کی بنیاد یہی ہے ،جدہ میں قیام کی مدت کا کم یا زیادہ ہونابنیا د نہیں ہے ۔ قال ابن عابدین: ان وجوب الاحرام بالمحاذاة انما یعتبرُ عند عدم المرور علی المواقیت۔( رد المحتار مع الدر المختار:۳/۴۲۶، بیروت، البحر الرائق:۲/۵۵۷، الہندیة:۱/۲۲۱،ط: زکریا، زبدة المناسک، ص: ۵۵۔۶۴، انوار مناسک،ص: ۲۴۴۔۲۴۷، امداد الفتاوی؛۲/۱۶۹، زکریا) (۴)حرم اور خارجی میقات کے درمیانی حصے کو حل کہتے ہیں ”ریاض “حدودِ حل میں داخل نہیں ہے اور اہل حل کے لیے اشہر حج میں عمرہ کرنا اُس وقت مکرو ہ ہے جب کہ اُسی سال اُن کا حج کا رادہ ہو، اگر اُن کا ارادہ حج کا نہیں ہے، تو اشہرِ حج میں عمرہ کرنا اُن کے لیے بلا کراہت جائز ہے۔ قال ابن عابدین: یزاد علی الأیام الخمسة ما في اللباب و غیرہ من کراہة فعلہا في أشہر الحج لأہل مکة ومن بمعناہم ۔۔۔۔ ومن في داخل المواقیت؛ لأن الغالب علیہم أن یحجوافي سنتہم ، فیکونوامتمتِّعین، وہم عن التَّمتُّع ممنوعون والا فلا منعَ للمکّيعن العمرة المنفردة في أشہر الحج اذا لم یحج في تلک السنة ( غنیة الناسک ،ص:۲۵۷۔۲۵۸، باب العمرة، الدرّ المختار مع ردّ المحتار:۳/۴۷۷، زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند