عبادات >> حج وعمرہ
سوال نمبر: 61118
جواب نمبر: 61118
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 692-692/Sd=11/1436-U (۱) اشہر حج میں عمرہ کرنے سے اُس وقت حج فرض ہوتا ہے جب کہ عمرہ کرنے والے پر پہلے سے حج فرض نہ ہو اور اُس کے پاس ایامِ حج تک قیام کے مصارف واسباب مہیا ہوں، اگر کسی شخص کے پاس اشہر حج میں عمرہ کرنے کے بعد حج کے ایام تک قیام کے مصارف نہ ہوں، تو اس پر اشہر حج میں عمرہ کرنے کی وجہ سے حج فرض نہیں ہوگا۔ (۲) والد صاحب کو اپنے فرض حج ادا ہونے کا پورا اطمینان کیوں نہیں ہے؟ کیا حج کے ارکان یا واجبات میں سے کچھ چھوٹ گیا ہے یا اس بات کا اندیشہ ہے کہ موجبات دم میں سے کسی امر کا لاعلمی میں ارتکاب ہوگیا ہو یا حج کے سنن ومستحبات میں کمی ہوجانے کا احساس ہے؟ عدم اطمینان کی وجہ وضاحت کے ساتھ تحریر فرمائیں۔ (۳) حج افراد کے مکمل طریقے کے لیے دیکھئے: کتاب المسائل: ۳/۱۲۱-۱۲۲، ۴۲۱- ۴۳۸، ط: فرید بک ڈپو، دہلی، مرتبہ: مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری مدظلہ۔ اور حج افراد میں طوافِ قدوم مسنون ہے اور حج کی سعی طواف قدوم کے ساتھ کرسکتے ہیں۔ ہو (طواف القدوم) سنة للآفاقي المفرد بالحج - إذا أراد تقدیم السعي علی وقتہ الأصلي وہو عقیب طواف الزیادة؛ لأن السعي تبع للطواف․والمشي إنما یتبع ما ہو أقوی منہ إلا أنہ رخَّص تقدیمہ عقب طواف القدوم لکثرة أفعال الحج یوم النحر․- (غنیة الناسک، ص: ۱۳۸) (۴) حج کی قربانی حج تمتع اور حج قران میں واجب ہوتی ہے، حج افراد میں حج کی قربانی واجب نہیں ہوتی؛ البتہ افضل ہے، اور حاجی پر اضحیہ کی قربانی اس وقت واجب ہوتی ہے جب کہ وہ ایامِ نحر میں صاحب نصاب ا ور مقیم ہو، مسافر نہ ہو۔ والذبح أفضل ویجب علی القارن والمتمتع․ (رد المحتار: ۳/ ۵۳۴)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند