• عبادات >> حج وعمرہ

    سوال نمبر: 55249

    عنوان: حرم شریف مکہ مکرمہ میں اگر جوتے باہر چھوڑ کر اندر جائیں تو واپسی پر ان کا ملنا مشکل ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں واپسی پر باہر جو جوتے پڑے ہوتے ہیں ان کا پہن کر ساتھ لے جانا جائز ہے یا نہیں؟

    سوال: بندہ کا اس سال حج بیت اللہ شریف کا ارادہ ہے ، قبولیت کے لیے دعا فرمائیں۔ ۱۔ حرم شریف مکہ مکرمہ میں اگر جوتے باہر چھوڑ کر اندر جائیں تو واپسی پر ان کا ملنا مشکل ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں واپسی پر باہر جو جوتے پڑے ہوتے ہیں ان کا پہن کر ساتھ لے جانا جائز ہے یا نہیں؟ ۲۔ اگر اس نیت سے کہ آپ کے جوتے گم نہ ہو جائیں آپ اپنے جوتے کسی شاپنگ بیگ وغیرہ میں ڈال کر حرم شریف کے اندر لے جائیں اور وہ شاپنگ بیگ کندھے سے لٹکا کر احرام یا بغیر احرام کی حالت میں طواف کریں، سعی کریں یا نماز پڑھیں تو اس کا کیا حکم ہے ؟ جوتے کی پاکی ناپاکی سے ان اعمال پر کچھ فرق پڑے گایا نہیں۔یا پھر اس مسئلے میں کوئی بہتر طریقہ ہو تو اس کی طرف راہنمائی فرمائیں۔ ۳۔ اگر یومِ عرفات جمعے کے روز ہو تو اپنے خیمے میں نمازِ جمعہ ادا کی جائے گی یا ظہر۔ جزاک اللہ تعالیٰ

    جواب نمبر: 55249

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1444-467/L=11/1435-U اللہ تعالیٰ آپ کے حج کو قبول فرمائیں۔ (۱) جن جوتوں کے بارے میں خیال ہو کہ مالک ان کو تلاش کرے گا ان کا پہننا جائز نہیں۔ اورجن کو اس خیال سے چھوڑدیا گیا کہ خواہ کوئی لے، ان کا پہننا جائز ہے۔ ولو من الحرم․․․ فینتفع الرافع بہا أي إلی أن یغلب علی ظنہ أن صاحبہا لا یطلبہا (الدر مع الرد ۴/۲۷۹ کتاب اللقطة ط: سعید) (۲) اگر کوئی شخص اپنے جوتے کسی چیز میں ڈال کر کندھے پر لٹکاکر حرم شریف کے اندر لے آئے اور طواف کرے، یا صفاء مروہ کی سعی کرے یا اس کے ساتھ نماز پڑھے تو اگر اس کے جوتے میں نجاست لگی ہوئی نہیں ہے تو سب اعمال صحیح ہیں، اور اگر جوتے میں نجاست لگی ہوئی ہے تو نماز نہ ہوگی، اورطواف کراہت کے ساتھ درست ہوجائے گا اور سعی بلاکراہت درست ہے۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے جوتوں کو صاف اور پاک کرکے اپنے بیگ کے اندر رکھ کر نماز، طواف اور سعی کریں، ولو طاف طواف وفي ثوبہ نجاسة أکثر من قدر الدرہم أجزاہ ولکن مع الکراہة ولا یلزمہ شيء (تاترخانیة ۳/۶۱۱،ہندیہ، ۱/۲۴۶، فتح القدیر: ۲/۴۲۵) ”غنیہ“ میں ہے: ولا یجب فیہ الطہارة عن الجنابة والحیض سواء کان سعی عمرة أو حج لأنہ عبارة توٴدي لا في المسجد (غنیة الناسک، ۱۳۴، تاترخانیة ۳/۶۱۰، والوالجیة: ۱/۲۹۴) (۳) ظہر پڑھے کیونکہ عرفات میں جمعہ نہیں ہے۔ وإذا وافق یوم عرفة یوم جمعة لم یصل الإمامُ فیہا باتفاق الأئمة لأنہا فضاء ولیست بمصر (ہندیة: ۱/۱۴۵)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند