• عبادات >> حج وعمرہ

    سوال نمبر: 40133

    عنوان: مرحوم والد یا والدہ کی طرف سے حج وعمرہ کیا جاسکتا ہے، جائز ودرست ہے

    سوال: حج وعمرہ والدہ یا والد کی فوت کے بعد ان کے نام پہ کیا جاسکتاہے یا نہیں؟جب ہم عمرہ کو جائیں تو پہلے اپنا کر لیں یا پہلے ان کے لیے کرنا چاہئے پھر بعد میں اپنے لئے ؟ صحیح طریقہ کیا ہے؟مہربانی کرکے بتائیں ۔

    جواب نمبر: 40133

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 600-588/N=8/1433 (۱) جی ہاں! مرحوم والد یا والدہ کی طرف سے حج وعمرہ کیا جاسکتا ہے، جائز ودرست ہے، ان کو ثواب پہنچ جائے گا بلکہ زندہ شخص کی طرف سے بھی ایصالِ ثواب کے لیے نفلی حج وعمرہ جائز ہے قال في الدر (مع الرد کتاب الحج باب الحج عن الغیر: ۴/۱۰، ط: زکریا دیوبند): الأصل أن کل من أتی بعبادة ما لہ جعل ثوابہا لغیرہ وإن نواہا عند الفعل لنفسہ لظاہر الأدلة إھ وفي الرد وقولہ: ”بعبادة ما“: أي: سواء کانت صلاة أو صوما أو صدقة أو قراء ة أو ذکرا أو طوافًا أو حجا أو عمرة أو غیر ذلک من زیارة قبور الأنبیاء علیہم الصلاة والسلام والشہداء والأولیاء والصالحین وتکفین الموتی وجمیع أنواع البر کما في الہندیة إھ․․․ وقولہ: ”لغیرہ“: أي: من الأحیاء والأموات بحر عن البدائع إھ․ (۲) آپ پہلے اپنا عمرہ کریں، پھر والدین کی طرف سے کیونکہ اپنا عمرہ سنت موٴکدہ ہے، کذا فی الدر (مع الرد کتاب الحج مطلب فی أحکام العمرة: ۳/۴۷۵، ۴۷۶)۔ اور والدین یا کسی اور کی طرف سے بغرض ایصالِ ثواب عمرہ صرف نفل ہے، اور سنت موٴکدہ نفل پر مقدم ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند