• عبادات >> حج وعمرہ

    سوال نمبر: 3441

    عنوان:

    کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہٴ اقدس پہ زیارت سے متعلق کوئی حدیث لکھی گئی ہے؟کیا یہ حدیث ضعیف ہے؟ اور کیا یہی دونوں حدیث قبر کے سامنے لکھی گئی ہیں:(الف)? جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگی? (ب) جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی یوں سمجھو اس نے میری زندگی میں زیارت کی?َ۔ (۳) آجکل کچھ گلاس ایسے ہوتے ہیں جن کے اوپر پیالہ یعنی گلاس سا ہوتاہے تو نیچے اسٹینڈ سا ہوتاہے، کیا ان گلاسوں میں پانی یا شربت پینا جائزہے؟ یا ان کو جام ومینا والے گلاس کہہ کر استعمال کرنا صحیح نہیں ہے؟

    سوال:

    کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہٴ اقدس پہ زیارت سے متعلق کوئی حدیث لکھی گئی ہے؟کیا یہ حدیث ضعیف ہے؟ اور کیا یہی دونوں حدیث قبر کے سامنے لکھی گئی ہیں:(الف)? جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگی? (ب) جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی یوں سمجھو اس نے میری زندگی میں زیارت کی?َ۔ (۳) آجکل کچھ گلاس ایسے ہوتے ہیں جن کے اوپر پیالہ یعنی گلاس سا ہوتاہے تو نیچے اسٹینڈ سا ہوتاہے، کیا ان گلاسوں میں پانی یا شربت پینا جائزہے؟ یا ان کو جام ومینا والے گلاس کہہ کر استعمال کرنا صحیح نہیں ہے؟

    جواب نمبر: 3441

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 357/ د= 316/ د

     

    روضہ اطہر کی زیارت سے متعلق متعدد روایات میں ترغیب دی گئی ہے اور فضیلت بھی بیان کی گئی ہے بلکہ ایک روایت میں تو یہاں تک فرمایا گیا ہے من حج البیت ولم یزرني فقد جفاني یعنی جو شخص حج کو گیا اور (بغیر کسی عذر کے) میری زیارت نہ کی اس نے مجھ پر ظلم کیا۔ اور ایک روایت میں ہے من حج فزار قبري بعد موتي کان کمن زارني في حیاتي أخرجہ البیھقي في الکبری ج۵ ص۲۴۶، دارقطني ج۲ ص۲۷۸، والبیھقي في شعب الإیمان ۴۱۵۴ دوسری روایت میں ہے من زار قبري وجبت لہ شفاعتي رواہ الدارقطني والبزار لہٰذا روضہٴ اقدس کی زیارت بالاجماع اعظم قربات اور افضل طاعت سے ہے، اور ترقی درجات کے وسائل میں سے سب سے بڑا وسیلہ ہے۔ بعض علماء نے اہل وسعت کے لیے اسے واجب لکھا ہے (معلم الحجاج) چونکہ روضہ اطہر کی زیارت کی فضیلت متعدد روایات اور مختلف طرق سے ثابت ہے اس لیے اگر کسی سند میں ضعف پایا بھی جائے تو وہ فضیلت کے ثبوت کے لیے مانع نہیں ہوگا۔

    (۲) روضہٴ اطہر پر یہ حدیثیں لکھی ہیں یا نہیں، میرے علم میں نہیں ہے۔

    (۳) اگر ان گلاسوں کا استعمال حرام مشروبات کے لیے ہوتا ہے اور اسی کے لیے خاص سمجھا جاتا ہے تو ایسے گلاسوں کا استعمال کراہت سے خالی نہیں ہے۔ اور اگر حرام مشروبات کے لیے مخصوص نہیں سمجھا جاتا، بلکہ ہرقسم کے مشروبات اس میں پینے کا رواج ہے، تو مضائقہ نہیں ہے، پھر بھی احتیاط اولیٰ ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند