• عبادات >> حج وعمرہ

    سوال نمبر: 20758

    عنوان:

    میں نے یہ سوال تین مہینے پہلے کیاتھا مگر جواب نہیں ملا۔میں دوبارہ سوال کرتاہوں۔الحمد للہ ، میں سال گذشتہ حج کے لیے گیا تھا۔ حج کے لیے میں نے حضرت مفتی تقی صاحب کی کتاب (حج، فضائل ومسائل) کو رہنما بنا یا۔یہ کتاب انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ اس کتاب میں مفتی تقی صاحب نے۱۳/ ذی الحجہ کو رمی کے بارے میں لکھا ہے کہ دو پہر سے قبل رمی کرنے کی سہولت ہے۔ اس پر عمل کرتے ہوئے میں نے دوپہر سے پہلے میں صرف ۱۳/ ذی الحجہ کو رمی کیا۔ کیمپ میں ایک اہل حدیث سے ملاقات ہوگئی اور دارالسلام سے شائع شدہ ایک کتاب دکھائی جس میں اب باز کا فتوی لکھاتھاکہ اگر ۱۳/ ذی الحجہ کو دوپہر سے رمی کی گئی تو تو دم واجب ہے۔براہ کرم، اس بارے میں تفصیل سے جواب دیں ۔اور دوپہر سے قبل رمی کرنے کے سلسلے میں جو حدیث ہے ، اس کی سند کے بارے میں بتائیں۔

    سوال:

    میں نے یہ سوال تین مہینے پہلے کیاتھا مگر جواب نہیں ملا۔میں دوبارہ سوال کرتاہوں۔الحمد للہ ، میں سال گذشتہ حج کے لیے گیا تھا۔ حج کے لیے میں نے حضرت مفتی تقی صاحب کی کتاب (حج، فضائل ومسائل) کو رہنما بنا یا۔یہ کتاب انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ اس کتاب میں مفتی تقی صاحب نے۱۳/ ذی الحجہ کو رمی کے بارے میں لکھا ہے کہ دو پہر سے قبل رمی کرنے کی سہولت ہے۔ اس پر عمل کرتے ہوئے میں نے دوپہر سے پہلے میں صرف ۱۳/ ذی الحجہ کو رمی کیا۔ کیمپ میں ایک اہل حدیث سے ملاقات ہوگئی اور دارالسلام سے شائع شدہ ایک کتاب دکھائی جس میں اب باز کا فتوی لکھاتھاکہ اگر ۱۳/ ذی الحجہ کو دوپہر سے رمی کی گئی تو تو دم واجب ہے۔براہ کرم، اس بارے میں تفصیل سے جواب دیں ۔اور دوپہر سے قبل رمی کرنے کے سلسلے میں جو حدیث ہے ، اس کی سند کے بارے میں بتائیں۔

    جواب نمبر: 20758

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ل): 683=229tl-5/1431

     

    ۱۳/ ذی الحجہ کو رمی کا مستحب وقت تو زوال کے بعد ہی ہے، لہٰذا اسی وقت رمی کرنا چاہیے، لیکن اگر کوئی شخص اس دن زوال سے پہلے رمی کرلے تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس کی گنجائش ہے، اس پر دم وغیرہ واجب نہیں ہوگا، دیگر ائمہ کے یہاں اس کی گنجائش نہیں ہے، ابن باز کا فتویٰ اپنے مسلک کے موافق ہے، اس سلسلے میں حضرت عبداللہ ابن عباس کا ایک اثر مروی ہے جو علمائے تابعین وغیرہم کے فتاویٰ سے موٴید ہے چنانچہ عکرمہ طاوٴس جو دونوں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے شاگرد ہیں، ان کا یہی فتویٰ ہے، اسی طرح اسحاق بن راہویہ جو بڑے محدث ہیں ان کی بھی یہی رائے ہے: قال في مراقي الفلاح: وإن طلع الفجر وھو بمنی في الرابع لزمہ الرمي وجاز قبل الزوال والأفضل بعدہ (۶۹۹) وفي ملتقی الأبحر: وإن رمی فیہ قبل الزوال جاز خلافاً لہما قال في المجمع جاز عند الإمام اقتداء بابن عباس رضي اللہ عنہ وہذا استحسان (مجمع الأنہر: ۱/۴۱۶، ط: بیروت) فإن رمی قبل الزوال في ہذا الیوم صح عند أبي حنیفة مع الکراہة وہو قول عکرمة وطاوٴس وإسحاق بن راہویہ (إعلاء السنن: ۱۰/ ۱۸۵) قلت وتبین بعمل إسحاق وعکرمة وطاوٴس وفتواہما الأثر الذي رواہ طلحة بن عمر وعن ابن عباس رضي اللہ عنہما أن لہ أصلا فقد علمت أن موافقہ فتاوی العلماء بحدیث دلیل علی صحتہ أو حسنہ (إعلاء السنن: ۱۰/ ۱۸۴)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند