• عبادات >> حج وعمرہ

    سوال نمبر: 18671

    عنوان:

    وقوف مزدلفہ ترک وسعی میں تاخیر

    سوال:

    میں اس سال حج کرکے آئی ہوں، دو مسئلوں کی بابت دریافت کرنا چاہتی ہوں، امید ہے جواب دے کر مشکور فرمائیں گے۔(۱)ہمارے گروپ میں سے کچھ لوگ نو ذوالحجہ کی رات کو مزدلفہ پہنچ تو گئے اور انھوں نے وہاں مغرب اورعشاء کی نماز بھی پڑھ لی تھی، لیکن وہ لوگ صبح صادق ہونے سے پہلے ہی مزدلفہ سے نکل گئے اور تقریباً صبح پانچ بجے منی اپنے خیمہ میں پہنچ گئے اور فجر کی نماز انھوں نے منی میں پڑھی۔ اس وقت صبح صادق پانچ بج کر بیس منٹ پر ہو رہی تھی۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ اس طرح سے ان پر دم لازم آئے گا یا نہیں؟ ان میں مرد حضرات بھی تھے اور خواتین بھی تھیں؟ (۲)ہمارے گروپ کے ساتھ ایک مولانا صاحب بھی گئے تھے اور مکہ میں ان کے حج بیانات بھی ہوتے تھے۔ انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ طواف زیارت کا وقت تو بارہ ذوالحجہ کی مغرب تک ہے، لیکن حج کی سعی میں گنجائش نکل سکتی ہے کہ اگر تھکے ہوئے ہیں تو بعد میں کر لیں۔ ان کا بیان سن کر بہت سے لوگوں نے صرف طواف کیا اور سعی تاخیر سے یعنی چودہ یا پندرہ ذوالحجہ کو کی۔ کیا ان کا اس طرح کرنا صحیح تھا؟ اگر نہیں، تو اس کا وبال کس کے ذمہ ہو گا؟ اوراس کا کفارہ کس طرح ادا کیا جاسکتا ہے آپ کی بہت مہربانی ہوگی اگر اس کا جواب تفصیل سے مرحمت فرمائیں۔ یہ مسئلہ وہاں بھی تنازعہ کا باعث بنا رہا اور لوگ ان مسئلوں پر الجھتے رہے۔

    جواب نمبر: 18671

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ھ): 51=51-1/1431

     

    (۱) وقوف مزدلفہ کا اصل وقت صبح صادق سے ہی شروع ہوتا ہے، جو لوگ صبح صادق سے پہلے حدودِ مزدلفہ سے نکل کر منی پہنچ گئے وہ سب تارکِ وقوف مزدلفہ کے مرتکب ہوئے، ان میں سے ہرایک کے ذمہ ایک ایک دم واجب ہے، جس کو حرم میں ہی ذبح کرنا لازم ہے۔

    (۲) بسلسلہٴ سعی جو مسئلہ مولانا صاحب نے بتلایا وہ درست ہے اس میں تاخیر کی وجہ سے کچھ واجب نہیں بلکہ سعی درست ہوگئی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند