• عبادات >> حج وعمرہ

    سوال نمبر: 176332

    عنوان: بلا احرام میقات سے گذر کر مسجد عائشہ سے عمرے کا احرام باندھنے کا حکم

    سوال: اگر کوئی شخص انڈیا سے سے عمرہ کی نیت کرکے بنا احرام کے مکہ جائے اور اس کے بعد وہاں مسجد عائشہ سے احرام باندھے اور اگر مکہ آکر میاں بیوی صحبت کرلے اور پھر اگلی صبح مسجد عائشہ سے احرام باندھے تو اس صورت حال پر قرآن وحدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔ براہ کرم، جواب دیں۔

    جواب نمبر: 176332

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:508-408/N=7/1441

    اگر کوئی شخص ہندوستان سے مکہ مکرمہ عمرے کے لیے جائے اور میقات سے احرام نہ باندھے؛ بلکہ مکہ مکرمہ پہنچ کر مسجد عائشہ جائے اور پھر وہاں سے احرام باندھ کر آئے تو جب تک وہ عمرہ کے افعال نہ کرے، اُس پر ضروری ہے کہ مدینہ منورہ یا طائف وغیرہ کی میقات پر واپس جائے اور وہاں سے احرام کی نیت کے ساتھ تلبیہ پڑھتا ہوا آئے۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرے گا یا اُس نے عمرہ کے افعال کرلیے ہوں تو اب اُس پر دم کا وجوب پختہ ہوجائے گا اور بلا احرام میقات سے گذرنے کی وجہ سے جو گناہ ہوا تھا، اُس سے توبہ واستغفار بھی ضروری ہوگا۔

    وحرم تأخیر الإحرام عنھا کلھا لمن أي: لآفاقي قصد دخول مکة یعنی: الحرم ولو لحاجة غیر الحج (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحج، ۳:۴۸۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، من أتی میقاتاً بنیة الحج أو العمرة أو دخول مکة أو دخول الحرم لا یجوز لہ أن یجاوزہ إلا بإحرام (البحر العمیق، ص ۶۱۷)، فإن لم یحرم وعاد بعد تحول السنة أو قبلہ فأحرم بما لزمہ بالمجاوزة من المیقات سقط الإثم والدم بالاتفاق (غنیة الناسک، ص ۷۶، ط: مکتبة الشیخ التذکاریة، سھارن فور)، آفاقي مسلم بالغ یرید الحج ولو نفلاً أو العمرة …… وجاوز وقتہ …ثم أحرم لزمہ دم کما إذا لم یحرم فإن عاد إلی میقات ما ثم أحرم ……سقط دمہ الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحج، باب الجنایات، ۳:۶۲۰- ۶۲۲)، فالمراد بقولہ:”إذا أراد الحج أو العمرة“ إذا أراد مکة اھ ملخصاً عن الشرنبلالیة، ولیس المراد بمکة خصوصھا؛ بل قصد الحرم مطلقاً موجب للإحرام کما مر قبیل فصل الإحرام، وصرح بہ فی الفتح وغیرہ (رد المحتار، ۳:۶۲۱)، وإذا جازو المحرم أحد المواقیت علی الوجہ الذي ذکرنا ودخل مکة بغیر إحرام فعلیہ حجة أو عمرة قضاء ما علیہ ودم لترک الوقت (البحر العمیق، ص ۶۶۲)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند