• عبادات >> حج وعمرہ

    سوال نمبر: 173356

    عنوان: بنا احرام حرم میں داخل ہو پھر احرام باندھ کر حج کرلے تو كیا حكم ہے؟

    سوال: ہم پانچ لوگ پانچ ذی الحجہ کو مدینہ سے مکہ بنا احرام بنا نیت کے داخل ہوگئے، بنا احرام داخل والا دم بھی ادا کردیا، پھر حج کیا سب احرام کے ساتھ اور واپس انڈیا آگئے ، اب کیا ہم کو عمرہ کی قضا بھی کرنی ہے یا دم دیا وہ کافی ہے؟ براہ کرم، رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 173356

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:47-35T/SN=2/1441

    چونکہ آپ حضرات نے اسی سال حج کرلیا ہے؛ اس لیے صورت مسئولہ میں آپ پانچ لوگوں کے ذمے عمرہ کی قضا ضروری نہیں ہے ؛ کیونکہ فقہا نے صراحت کی ہے کہ بنا احرام حرم میں داخل ہونے والا شخص اگر اسی سال کوئی حج یا عمرہ کرلے تو ان کا ذمہ فارغ ہوجاتا ہے یعنی بنا احرام داخل ہونے کی وجہ سے جو نسک اس پر لازم ہوگیا تھا وہ ساقط ہوجاتا ہے ۔

    (قولہ: من جاوزالمیقات غیرمحرم ثم عاد محرما ملبیا أوجاوزثم أحرم بعمرة ثم أفسد، وقضی بطل الدم) أی من جاوزآخرالمواقیت بغیرإحرام ثم عاد إلیہ، وہو محرم، ولبی فیہ فقد سقط عنہ الدم الذی لزمہ بالمجاوزة بغیر إحرام ؛ لأنہ قد تدارک ما فاتہ، أطلق الإحرام فشمل إحرام الحج فرضا کان أو نفلا، وإحرام العمرة...(قولہ: ومن دخل مکة بلا إحرام (وجب علیہ أحدالنسکین) ثم حج عما علیہ فی عامہ ذلک صح عن دخول مکة بلا إحرام، وإن تحولت السنة لا) ؛ لأنہ تلافی المتروک فی

    وقتہ؛ لأن الواجب علیہ تعظیم ہذہ البقعة بالإحرام کما إذا أتاہا بحجة الإسلام فی الابتداء بخلاف ما إذا تحولت السنة؛ لأنہ صار دینا فی ذمتہ فلا یتأدی إلا بإحرام مقصود کما فی الاعتکاف المنذور فإنہ یتأدی بصوم رمضان من ہذہ السنة دون العام الثانی، فإن قلت: سلمنا أن الحجة بتحول السنة تصیر دینا؛ ولکن لانسلم أن العمرة تصیر دینا؛ لأنہا غیر مؤقتة قلت: لاشک أن العمرة یکرہ ترکہا إلی آخرأیام النحروالتشریق فإذا أخرہا إلی وقت یکرہ صارکالمفوت لہا فصارت دینا کذا فی غایة البیان.(البحرالرائق،3/85، وبعدہ1،ط: مکتبة زکریا/ دیوبند) نیز دیکھیں: احسن الفتاوی 4/527،ط: زکریا اور معلم الحجاج، ص:106، بشری، مسئلہ6)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند