• عبادات >> حج وعمرہ

    سوال نمبر: 169200

    عنوان: قرعہ اندازی كے ذریعے حج كرانا؟

    سوال: آپ کو صحت کے ساتھ درازئی عمر عطا فرمائے آمین ۔میں کراچی پاکستان میں ایک سرکاری ادارے میں کام کرتا ہوں۔یہاں بہت سے سرکاری اداروں میں قرعہ اندازی کے ذریعے ملازمین کو سرکاری خرچہ پر حج پر بھیجا جاتا ہے ، ہمارے ادارے کی ایک یونین "ورکرز یونین" نے ڈائریکٹر جنرل کو تجویز پیش کی کہ ایک فنڈ قائم کیا جائے جس کے لئے ملازمین سے (جو شرکت کرنا چاہے) ہر ماہ ایک سو روپیہ لیا جائے اور سال کے آخر میں جتنی بھی رقم جمع ہو اس کے مطابق قرعہ اندازی کروا کے اتنے لوگوں کو حج پر بھیجا جائے ۔اس تجویز کو پسند کرتے ہوئے اس پر عمل شروع ہو گیا اور اس میں نائب قاصد سے لے بڑے عہدوں پر فائز افسران نے شمولیت اختیار کی اور اس سال تقریباً بیس لاکھ روپیہ جمع ہوگیا اب قرعہ اندازی ہونی ہے ۔ آپ سے اس مسئلے پر شرعی حکم درکار ہے؛ ۱. کیا یہ اسکیم شرعی لجاظ سے جائز ہے ؟ ۲.اس اسکیم میں ایسے افسران بھی شامل ہیں جو مستحق نہیں بلکہ ان کی ماہانہ تنخواہ اتنی ہے کہ وہ از خود حج کرسکتے ہیں؟ ان کے متعلق شرع کا کیا حکم ہے ؟ ۳. اس اسکیم کے مطابق اگر کسی ملازم کا نام قرعہ اندازی میں نہ آئے اور وہ اپنی جمع شدہ رقم واپس لینا چاہے تو لے سکتا ہے ؟ کیا کسی ملازم کا یہ عمل شرعی لحاظ سے درست ہے ؟ ۴.اس سلسلے میں اگر کوئی اور چیز ہو تو اس کو بھی شرعی تقاضوں کہ مطابق تجویز کردیں۔ چونکہ قرعہ اندازی ہونے والی ہے اگر جواب فتویٰ کی صورت میں جلد مل جائے تو مہربانی ہوگی۔ اللّہ تعالٰی اس رہنمائی کے لئے آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔ اور آپ کے علم میں اضافہ فرمائے ۔ آمین

    جواب نمبر: 169200

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 777-786/H=08/1440

    قرعہ اندازی کے ذریعے حج کرانے میں چند چیزیں قابل تنقیح ہیں:

    (۱) جس کا نام قرعہ اندازی میں نکل آتا ہے، نام نکلنے کے بعد اس کو کتنے سالوں تک روپئے جمع کرنے پڑتے ہیں یعنی جس کا نام پہلے نکلتا ہے اور جس کا بعد میں نکلتا ہے دونوں کے روپئے برابر جمع ہوتے ہیں یا کم زیادہ ۔

    (۲) شرکاء میں سے ہر ایک کو اس کی جمع شدہ رقم ہی کے برابر ملتا ہے یا کم زیادہ ۔

    (۳) حج کی قیمت اگر بڑھ جائے تو زیادتی کا ذمہ دار کون ہوتا ہے یعنی اس اسکیم میں ہر شریک کو نتیجتاً برابر نفع پہنچتا ہے یا کم زیادہ ۔

    ان امور کی وضاحت کے بعد جواب لکھا جا سکتا ہے۔

    جو ایسے صاحب استطاعت ہیں کہ شرعاً ان پر حج فرض ہو چکا ہے، ان کے لئے بلاتاخیر حج کرنا ضروری ہے، قرعہ اندازی کی وجہ سے تاخیر کرنا موجب گناہ ہے۔ وللہ علی الناس حج البیت من استطاع إلیہ سبیلاً (۹۷/ آل عمران) وفی الفتح ویأثم بالتأخیر عن أول سني الإمکان فلو حج بعدہ ارتفع الإثم ردّ المحتار: ۳/۴۵۵۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند