• عبادات >> حج وعمرہ

    سوال نمبر: 166036

    عنوان: کیا طائف سے مکہ مکرمہ آتے وقت عمرہ کی نیت سے احرام باندھنا ضروری ہے؟

    سوال: گزشتہ سال ہم کچھ لوگ عمرہ کرنے گئے تھے اسی درمیان زیارت وغیرہ کے لئے طائف بھی جانا ہوا، تو کیا طائف سے مکہ مکرمہ آتے وقت عمرہ کی نیت سے احرام باندھنا ضروری تھا؟ اگر احرام نہیں باندھ سکے تو کیا دم دینا لازم آئیگا؟ اور یہ بھی کہ اس غلطی کی وجہ سے عمرہ بھی ادا کرنے جانا پڑیگا؟ برائے مہربانی اس کا مکمل حل بتائیں کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟

    جواب نمبر: 166036

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:190-17/T/L=3/1440

    طائف چونکہ میقات سے باہر ہے ؛اس لیے طائف سے مکہ بلا احرام آنے کی صورت میں مجاوزوتِ میقات کی وجہ سے ایک دم لازم ہوگیا اسی طرح احدالنسکین (حج یا عمرہ ) میں سے کوئی ایک لاز م ہو گیا اگر اسی سال حج یا عمرہ خواہ کسی بھی نیت سے کرلیا جائے توجوعمرہ یا حج اس پرواجب ہوا تھا وہ ساقط ہوجائے گا اور اگر اس سال حج یا عمرہ نہیں کرتا ہے تو خاص قضا کی نیت سے حج یا عمرہ کرنا ضروری ہوگا۔اوراگر حج یا عمرہ میقات سے احرام باندھ کر کیا جائے تو مجاوزتِ میقات بلا احرام (میقات سے بلا احرام گذرنے ) کی وجہ سے جو دم لازم ہوا تھا وہ بھی ساقط ہوجائے گا۔

    ولا یجوز للآفاقی أن یدخل مکة بغیر إحرام نوی النسک أو لا ولو دخلہا فعلیہ حجة أو عمرة کذا فی محیط السرخسی․ (الفتاوی الہندیة:۱/۲۲۱)

    وفی الدرالمختار: (وَ) یَجِبُ (عَلَی مَنْ دَخَلَ مَکَّةَ بِلَا إحْرَامٍ) لِکُلِّ مَرَّةٍ (حَجَّةٌ أَوْ عُمْرَةٌ) فَلَوْ عَادَ فَأَحْرَمَ بِنُسُکٍ أَجْزَأَہُ عَنْ آخِرِ دُخُولِہِ، وَتَمَامُہُ فِی الْفَتْحِ (وَصَحَّ مِنْہُ) أَیْ أَجْزَأَہُ عَمَّا لَزِمَہُ بِالدُّخُولِ (لَوْ أَحْرَمَ عَمَّا عَلَیْہِ) مِنْ حَجَّةِ الْإِسْلَامِ أَوْ نَذْرٍ أَوْ عُمْرَةٍ مَنْذُورَةٍ لَکِنْ (فِی عَامِہِ ذَلِکَ) لِتَدَارُکِہِ الْمَتْرُوکَ فِی وَقْتِہِ (لَا بَعْدَہُ) لِصَیْرُورَتِہِ دَیْنًا بِتَحْوِیلِ السَّنَةِ․(الدرالمختار مع ردالمحتار:۳/۲۶۶ط:زکریا دیوبند)

    (جَاوَزَ الْمِیقَاتَ) بِلَا إحْرَامٍ (فَأَحْرَمَ بِعُمْرَةٍ ثُمَّ أَفْسَدَہَا مَضَی وَقَضَی وَلَا دَمَ عَلَیْہِ) لِتَرْکِ الْوَقْتِ لِجَبْرِہِ بِالْإِحْرَامِ مِنْہُ فِی الْقَضَاءِ(الدرالمختار)وفی ردالمحتار: (قَوْلُہُ لِجَبْرِہِ بِالْإِحْرَامِ مِنْہُ فِی الْقَضَاءِ) عِلَّةٌ لِقَوْلِہِ وَلَا دَمَ عَلَیْہِ إلَخْ وَضَمِیرُ مِنْہُ لِلْوَقْتِ أَشَارَ بِہِ إلَی أَنَّہُ لَا بُدَّ فِی سُقُوطِ الدَّمِ مِنْ إحْرَامِہِ فِی الْقَضَاءِ مِنْ الْمِیقَاتِ کَمَا صُرِّحَ بِہِ فِی الْبَحْرِ، فَلَوْ أَحْرَمَ مِنْ الْمِیقَاتِ الْمَکِّیِّ لَمْ یَسْقُطْ الدَّمُ وَہُوَ مُسْتَفَادٌ أَیْضًا مِمَّا قَدَّمْنَاہُ عَنْ الشُّرُنْبُلَالِیَّةِ․ (الدرالمختار مع ردالمحتار :۳/۶۲۷ط:زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند