• عبادات >> حج وعمرہ

    سوال نمبر: 150101

    عنوان: عمرہ اور طواف کا طریقہ

    سوال: میں سعودی عرب میں رہتا ہوں، الحمدللہ عمرہ کرتا رہتا ہوں ، میرا سوال یہ تھا ۱- طواف اور عمرہ سے پہلے یا بعد میں کوئی واجب یا نفل نماز ہے ؟ ۲- استلام ہر چکر پر کرنا ہوتا ہے اور استلام کی کوئی دعا ہے ؟ ۳- کتنے چکر میں رمی کرنا ہوتا ہے اگرچہ رمی کرنا یاد نہ رہے تو کیا عمرہ ہو جائے گا؟ ۴- عمرے الحمدللہ میں نے کئے ہیں اب میں اپنے والدین کے نام پر عمرہ کرنا چاہتا ہوں، اب جب میں عمرہ کیلئے جاوں تو پہلے اپنے نام کا کرنا ہو گا یا والدین کے نام پر کر سکتا ہو؟ ۵- سعی کیلئے صفا اور مروہ پر استلام کرنا ہوتا ہے یا نہیں اگر کرنا ہوتا ہے تو ایک بار یا ہر چکر پر کرنا ہوتا ہے ؟

    جواب نمبر: 150101

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 666-657/N=7/1438

    (۱): طواف سے پہلے تو کوئی نماز نہیں ہے؛ البتہ احرام کی نیت سے پہلے دو رکعت سنت ہیں اگرمکروہ وقت نہ ہو۔ اور طواف کے بعد دو رکعت واجب ہیں اور سعی کے بعد دو رکعت مستحب ہیں، باقی عمرہ اور طواف میں کوئی نماز نہیں ہے۔

    وصلی ندباً بعد ذلک شفعاً یعنی: رکعتین في غیر وقت مکروہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحج، ۳:۴۸۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”ندباً“:وفی الغایة أنھا سنة، نھر۔ وبہ جزم فی البحر والسراج (رد المحتار)، ثم صلی شفعاً في وقت مباح یجب … علی الصحیح بعد أسبوع عند مقام…… أو غیرہ من المسجد (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحج، ۳: ۵۱۲، ۵۱۳)، قولہ: ” صلی شفعاً“:أي: رکعتین الخ (رد المحتار)، والمشھور في عامة الکتب أن صلاتھا فی المسجد أفضل من غیرہ (المصدر السابق، ص ۵۱۳)، وندب ختمہ- السعي- برکعتین فی المسجد کختم الطواف (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحج، ۳: ۵۱۵)، قال فی الفتح: ولا حاجة إلی ھذا القیاس إذ فیہ نص، وھو ما روی المطلب بن أبي وداعة قال: ”رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حین فرغ من سعیہ جاء حتی إذا حاذی الرکن فصلی رکعتین في حاشیة المطاف ولیس بینہ وبین الطائفین أحد“، رواہ أحمد وابن ماجة وابن حبان (رد المحتار، ۳: ۵۱۵)۔

    (۲): حجر اسود کا استلام طواف کے شروع میں اور ہر چکر میں کیا جائے گا ، اور ختم طواف پر بھی استلام کیا جائے گا، اور ہر چکر میں رکن یمانی کا استلام بھی مستحب ہے؛ البتہ اس کا بوسہ نہ لیا جائے ، صرف ہتھیلی یا دایاں ہاتھ اسے لگایا جائے۔اور حجر اسود کے استلام کے وقت یا استلام ممکن نہ ہونے کی صورت میں ہاتھ سے اشارے کے وقت تکبیر، تہلیل، حمد باری تعالی اور دور شریف پڑھنا چاہیے ، مثلا یوں کہے: اللہ أکبر و لا إلہ إلا اللہ والحمد للہ وصلی اللہ علی النبي الکریم۔ اور مجمع الانہر (۱: ۴۰۳علمیہ) میں ہے: ہرچکر میں استلام کے وقت یہ دعاء پڑھے: رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَتَجَاوَزْ عَمَّا تَعْلَمُ بِأنَّکَ أنْتَ الْأَعَزُّ الْأَکْرَمُ․ اور فتاوی عالمگیری (۱: ۲۲۵مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند) میں محیط کے حوالہ سے درج ذیل دعا آئی ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم، اللہم اغْفِرْ ذُنُوْبِيْ وطَہِّرْ لِيْ قَلْبِي واشْرَح لِي صدرِي ویَسِّر لِي أمري وعافِنِي فیْمن عافیت․

    فاستقبل الحجر مکبراً مھللاً رافعاً یدیہ کالصلاة واستلمہ بکفیہ وقبلہ بلا صوت ……وإلا یمکنہ ذلک یمس بالحجر شیئاً في یدہ ولو عصاً ثم قبلہ أي: الشیٴ، وإن عجز عنھما أي: الاستلام والإمساس استقبلہ مشیراً إلیہ بباطن کفیہ کأنہ واضعھما علیہ وکبر وھلل وحمد اللہ تعالی وصلی علی النبي صلی اللہ علیہ وسلم ثم یقبل کفیہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحج، ۳:۵۰۴، ۵۰۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وکلما مر بالحجر فعل ما ذکر من الاستلام واستلم الرکن الیماني وھو مندوب لکن بلا تقبیل ……وختم الطواف باستلام الحجر استناناً (المصدر السابق، ص ۵۱۱-۵۱۲)۔

    (۳): رمی کا مطلب ہے کہ میدان منی میں جو تین شیطان ہیں، ان میں سے کسی کو کنکریاں مارنا، رمی کا عمل صرف حج میں ہوتا ہے، عمرہ میں نہیں ہوتا۔ اور اگر رمی کا مطلب آپ کے ذہن میں کچھ اور ہو تواس کی وضاحت کے ساتھ سوال کریں۔

    (۴): پہلے اپنی طرف سے کرلیں، اس کے بعد مکہ مکرمہ کے قیام کے زمانے میں والدین یا جس کی طرف سے چاہیں کریں۔اور اگر آپ پہلا عمرہ اپنے والدین ہی کی طرف سے کریں تو اس میں بھی کچھ حرج نہیں۔

    (۵): سعی میں صفا اور مروہ پر استلام کا حکم نہیں ہے؛ البتہ جب سعی کا ارادہ ہو تو سعی شروع کرنے سے پہلے حجر اسود کا استلام سنت ہے۔

    وعاد إن أراد السعي واستلم الحجر وکبر وھلل وخرج من باب الصفا الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحج، ۳: ۵۱۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند