• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 69377

    عنوان: مسند احادیث کی کل تعداد چار ہزار چار سو ہے جو کہ صحیح سند کے ساتھ بلا تکرار مروی ہیں سے کیا مراد ہے؟

    سوال: مسند احادیث جو کہ چار ہزار چار سو ہیں صحیح سند کے ساتھ بلاتکرار مروی ہیں سے کیامراد ہے ؟ کیا تمام مسند احادیث تمام علماء کے نزدیک صحیح ہیں؟یا اس بات پر بھی اختلافات ہیں؟ کیا ہر مسند حدیث کا متن تمام مسند احادیث سے منفرد ہے ؟یا پھرجیسے کی مختلف سندوں سے مروی حدیث مختلف ہوگی اگرچہ کی متن ایک ہی ہو۔اس طرح اس چار ہزار چار سو احادیث میں کہیں ایسے تو نہیں کہ ایک حدیث کو مختلف سندوں سے بیان کرنے کی وجہ سے دو یا دو سے زائد مسند احادیث مانا جائے ۔ اللہ کہ لئے رہنمائی کرکے مسند حدیث میں اور صحیح حدیث میں کیا فرق ہے؟ اور صحیح حدیث کی تعداد کیا ہے؟

    جواب نمبر: 69377

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1159-1236/SN37=2/1438
    (الف) مسند حدیث اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند اوّل سے اخیر یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک متصل ہو، بیچ میں کوئی انقطاع نہ ہو۔ المسند: مااتصل سندہ مرفوعاً إلی النبي - صلی اللہ علیہ وسلم۔ (تیسیر مصطلح الحدیث) یعنی مسند حدیث کے لیے صرف ”سند“ کا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک متصل ہونا کافی ہے، اس کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ ”روات“ سب ثقہ اور ضابط ہوں اور نہ یہ ضروری ہے کہ اس حدیث میں شذوذ اور ”علتِ خفیہ“ نہ ہوں۔ اور ”حدیث صحیح“ اس حدیث کوکہتے ہیں جس کی سند میں انقطاع نہ ہو، اس کے تمام روات عادل اور ضابط ہوں، نیز شذوذ اور علتِ خفیہ سے خالی ہو، الصحیح اصطلاحاً: ما اتصل سندہ بنقل العدل الضابط عن مثلہ إلی منتہاہ من غیر شذوذ ولا علّة (تیسیر مصطلح الحدیث) ان دونوں کی تعریفوں سے ان کا باہمی فرق واضح ہے کہ مسند حدیث، صحیح بھی ہو سکتی، نیز ضعیف؛ بلکہ موضوع بھی ہو سکتی ہے یعنی جو حدیث مسند ہوگی اس کا صحیح ہونا ضروری نہیں ہے، اسی طرح صحیح حدیث کے لیے مسند ہونا بھی ضروری نہیں ہے، الغرض دونوں کے درمیان ”عموم خصوص من وجہٍ“ کی نسبت ہے۔
    نوٹ: یہ صحیح لذاتہ کی تعریف ہے، صحیح کی ایک قسم صحیح لغیرہ بھی ہے، تفصیل کے لیے اس موضوع کی کتابیں دیکھی جائیں۔
    (ب) ایک مضمون سے متعلق متعدد مسند حدیثیں ہو سکتی ہیں، ہر مسند حدیث کا متن دوسری مسند حدیث سے مختلف ہو، یہ ضروری نہیں، جس کتاب میں تعداد کے حوالے سے یہ بات لکھی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ مسند احادیث جن کے متون ایک دوسرے سے مختلف ہوں، نیز وہ صحیح بھی ہوں یعنی ان میں کوئی راوی ضعیف، متہم بالکذب اور ”واضع“ نہ ہو، اسی طرح شذوذ اور علتِ خفیہ سے بی  خالی ہوں، ان کی تعداد چار ہزار چاسو ہے۔
    (۲) علامہ صنعانی رحمہ اللہ کی معروف کتاب ”توضیع الافکار لمعانی تنقیح الانظار“ میں سفیان ثوری رحمہ اللہ ، شعبہ رحمہ اللہ، یحی بن سعید القطان رحمہ اللہ، عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے کہ صحیح احادیث جو مسند ہوں اور بلا تکرار مروی ہوں ان کی تعداد چار ہزار چار سو ہے۔
    فائدة ذکرہا الحافظ بن حجر عن أبی جعفر محمد بن الحسن البغدادی أنہ قال فی ”کتاب التمییز“ لہ عن النووی وشعبة ویحی بن سعید القطان وابن مہدی واحمد بن حنبل أن جملة الأحادیث المسندة عن النبي - صلی اللہ علیہ وسلم یعنی الصحیحة بلا تکرار أربعة آلاف وأربع مأة حدیث الخ (۱/۶۴، ط: بیروت) حاصل یہ ہے کہ آپ نے جوکچھ پڑھا صحیح پڑھا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند