• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 68093

    عنوان: تلاوت کے بعد صدق اللہ العظیم پڑھنا كیسا ہے؟

    سوال: محترم علمائے کرام و مفتیان عظام درج ذیل مضمون کا بغور مطالعہ کیجئے اور بندہ کے سوالوں کا جواب دیجئے سنة مہجورة بعد تلاوة القرآن سنة یغفل عنہا کثیر من الناس بعد تلاوة القرآن… یُسْتَحَبُّ بعد الانتہاء من تلاوة القرآن أن یُقال: سُبْحَانَکَ اللَّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ ، أشہد أن لاَ إِلَہَ إِلاَّ أَنْتَ ، أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوبُ إِلَیْکَ . والدلیل علی ذلک: عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ : مَا جَلَسَ رَسُولُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَجْلِسًا قَطُّ، وَلاَ تَلاَ قُرْآناً، وَلاَ صَلَّی صَلاَةً إِلاَّ خَتَمَ ذَلِکَ بِکَلِمَاتٍ، قَالَت ْ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللہِ، أَرَاکَ مَا تَجْلِسُ مَجْلِساً، وَلاَ تَتْلُو قُرْآنًا، وَلاَ تُصَلِّی صَلاَةً إِلاَّ خَتَمْتَ بِہَؤُلاَءِ الْکَلِمَاتِ ؟ قَالَ نَعَمْ، مَنْ قَالَ خَیْراً خُتِمَ لَہُ طَابَعٌ عَلَی ذَلِکَ الْخَیْرِ، وَمَنْ قَالَ شَرّاً کُنَّ لَہُ کَفَّارَةً سُبْحَانَکَ اللَّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ، أشہد أن لاَ إِلَہَ إِلاَّ أَنْتَ، أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوبُ إِلَیْکَ). والناس الیوم (الا من رحم اللہ) ترکوا ہذہ السنة فقالوا بعد قرائة القرآن : صدق اللہ العظیم! أو یقبل المصحف وینبغی علینا نشر ہذہ السنة بدلاً عنہا…........... ولقد بَوَّب الإمامُ النسائی علی ہذا الحدیث بقولہ : ( ما تُختم بہ تلاوة القرآن ). إسنادہ صحیح: أخرجہ النسائی فی "السنن الکبری". وقال الحافظ ابن حجر فی "النکت" (733/2): [إ سنادہ صحیح)، وقال الشیخ الألبانی فی "الصحیحة" (495/7): [ہذا إسنادٌ صحیحٌ أیضاً علی شرط مسلم)، وقال الشیخ مُقْبِل الوادعی فی "الجامع الصحیح مما لیس فی الصحیحین" (128/2) : [ہذا حدیثٌ صحیح). جزی اللہ خیراً من قرأہا ، وساعد فی نشرہا ، وبارک اللہ فیہ مضمون سے بہت پریشان ہوں کہ اگر واقعی یہ سنت ہے تو اکابر نے کبھی اسکی طرف توجہ نا کی اور ناہی دلائی .آخر کیوں؟ اور اگر یہ سنت نہیں تو پھر اسکا جواب کیا دیا جائے اور جس حدیث کو بطور دلیل پیش کیاہے .. وہ حدیث اسکا محمل ہے یا نہیں دلیلا پیش کرنا صحیح ہے یا نہیں؟ اور اس حدیث کا درجہ کیاہے ؟

    جواب نمبر: 68093

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 698-698/B=9/1437 امام نسائی کے علاوہ عام محدثین نے مذکورہ دعا کفارة مجلس کے باب میں ذکر کی ہے مجلس میں خواہ تلاوت قرآن ہو، یا حدیث سننے سنانے کا موقعہ ہو، یا مجلس میں لایعنی باتیں کہی اور سنی گئی ہوں، غرض جس طرح کی بات اچھی یا بری مجلس میں کہی گئی ہو، اخیر میں سبحانک اللہم وبحمدک أشہد أن لاإلہ إلا أنت أستغفرک وأتوب إلیہ، کا پڑھنا مستحب او ربہتر بتایا گیا ہے۔ لہذا امام نسائی کا باب بھی عموم پر عام محدثین کے قول کے مطابق محمول کیا جائے گا۔ ”صدق اللہ العظیم“ کو سنت سمجھ لیا گیا ہے یہ بڑے تعجب کی بات ہے۔ قاری جب قرآن کی تلاوت ختم کرتا ہے تو وہ اپنے اختتام کی خبر اور اعلام کے لیے صدق اللہ العظیم پڑھتا ہے وہ سنت سمجھ کر نہیں پڑھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے نجی طور پر قرآن کی تلاوت جب کرتاہے تو ایک پارہ یا دوپارہ تلاوت کرنے کے بعد وہ کچھ بھی نہیں پڑھتا ہے، اگر وہ سنت سمجھ کر پڑھتا تو ہر تلاوت کے بعد صدق اللہ العظیم پڑھتا، آپ کا سوال ناسمجھی پر مبنی ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند