عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت
سوال نمبر: 62932
جواب نمبر: 62932
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 145-145/Sd=3/1437-U یہ صحابی حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد محترم حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ تھے، یہ غزوہ احد میں شہید ہوگئے تھے ۔بخاری شریف میں ہے:حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جس وقت میرے والد محترم نے غزوہ احد میں شریک جنگ ہوکر شہادت حاصل کی، اُس وقت اُن کے ذمہ بہت قرض تھا اور انہوں نے چھ بیٹیاں چھوڑیں ( ترمذی شریف کی ایک روایت میں سات بیٹیوں کا ذکر ہے ) پھر جب کھجوروں کے کٹنے کا وقت قریب ہوا، تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر خدمت ہوا اور میں نے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کو پورا واقعہ بتلایا،اس کے بعد میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ تشریف لے چلیں، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دست مبارک سے قرض خواہوں کواُن کا قرضہ تقسیم فرمائیں اور قرض خواہ حضرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر قرض کی وصولیابی میں کچھ تخفیف کر دیں، میں نہیں چاہتا کہ میرے گھر کے لیے بھی کچھ بچے ، میری چاہت فقط اتنی ہے کہ میرے والد صاحب کا قرضہ اداء ہو جائے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم جاکر اُن تمام کھجوروں کو ایک جگہ اکھٹا کر لو، پھر جب میں نے یہ سب کچھ کر لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، تو قرض خواہ مجھے گھور کر دیکھنے لگے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے بڑے ڈھیر کے ارد گرد تین چکر لگائے اور مجھ سے فرمایا کہ اپنے قرض خواہوں کو بلالو، چنانچہ آپ تقسیم فرماتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے اپنے کرم سے میرے والد صاحب کے ذمہ قرضہ بھی اداء کروادیا اور تمام ڈھیروں کوبھی جوں کا توں باقی رکھا۔ عن الشعبي قال: حدثني جابر بن عبد اللّٰہ أن أباہ استشہد یوم أحد، وترک علیہ دیناً، وترک ست بنات، فلماحضر جزاز النخل، قال: أتیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقلت : قد علمتَ أن والدي قد استشہد یوم أحد، و ترک دیناً کثیراً، واني أحب أن یراک الغرماء، فقال: اذہب، فبیدر کل تمر علی ناحیة، ففعلتُ، ثم دعوتہ، فلما نظروا الیہ کأنہم اغروا بي تلک الساعة، فلما رأی ما یصنعون أطاف حول أعظمہابیدراً ثلاث مرات، ثم جلس علیہ، ثم قال: ادع لي أصحابک، فما زال یکیل لہم، حتی أدی اللّٰہ عن والدي أمانتہ، وأنا أرضی أن یوٴدي اللّٰہ أمانة والدي، ولا أرجع الی أخواتي بتمرة، فسلم اللّٰہ بیادر کلہا، وحتی أني أنظر الی البیدر الذي کان علیہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کأنہا لم تنقص تمرة واحدة۔ ( البخاري، رقم: ۴۰۵۳، کتاب المغازي، باب غزوة أحد)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند