• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 6115

    عنوان:

    میرا سوال ان ضعیف احادیث کے متعلق ہے جوان اعمال کے فضائل کے بارے میں آئی ہیں جو قرآن اور صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔ یعنی احادیث ضعیف ہیں لیکن جن اعمال کے فضائل کے متعلق ہیں وہ قرآن اور صحیح احادیث سے ثابت ہیں جیسے نماز روزہ او رحج وغیرہ۔ (۱) ان ضعیف احادیث پر سو فیصد یقین کرنا کیسا ہے؟ اگر کوئی شخص ان احادیث پر سو فیصد یقین کرتا ہے تو کیا وہ گناہ گار ہوگا؟ (۲) اگر کوئی تقریرکرنے والا اپنے بیان میں ضعیف احادیث بیان کرتا ہے اور یہ نہیں بتاتا کہ یہ ضعیف حدیث ہے اورکوئی سامع اس پر سو فیصد یقین کرلیتا ہے تو گناہ گار کون ہوگا؟ کیوں کہ عوام نہیں جانتے کہ ضعیف حدیث کون سی ہے اور صحیح کون سی ہے۔ (۳)جن کتابوں میں ایسی ضعیف احادیث آئی ہیں اور کچھ جگہ پر یہ توضیح نہیں ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف، تو ایسی کتابوں کو پڑھنے کا کیا طریقہ ہے؟ اگر کوئی شخص کوئی ضعیف حدیث پڑھ کر اس کو صحیح حدیث کے طورپر بیان کرتا ہے تو گناہ گار کون ہوگا، مصنف یا قاری یعنی پڑھنے والا؟ اس کتاب کی ایک مثال فضائل اعمال ہے۔ (۴) بچوں کو ضعیف احادیث کیسے بتائی جائیں کیوں کہ وہ صحیح حدیث اور ضعیف حدیث میں فرق نہیں کرسکتے؟

    سوال:

    میرا سوال ان ضعیف احادیث کے متعلق ہے جوان اعمال کے فضائل کے بارے میں آئی ہیں جو قرآن اور صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔ یعنی احادیث ضعیف ہیں لیکن جن اعمال کے فضائل کے متعلق ہیں وہ قرآن اور صحیح احادیث سے ثابت ہیں جیسے نماز روزہ او رحج وغیرہ۔ (۱) ان ضعیف احادیث پر سو فیصد یقین کرنا کیسا ہے؟ اگر کوئی شخص ان احادیث پر سو فیصد یقین کرتا ہے تو کیا وہ گناہ گار ہوگا؟ (۲) اگر کوئی تقریرکرنے والا اپنے بیان میں ضعیف احادیث بیان کرتا ہے اور یہ نہیں بتاتا کہ یہ ضعیف حدیث ہے اورکوئی سامع اس پر سو فیصد یقین کرلیتا ہے تو گناہ گار کون ہوگا؟ کیوں کہ عوام نہیں جانتے کہ ضعیف حدیث کون سی ہے اور صحیح کون سی ہے۔ (۳)جن کتابوں میں ایسی ضعیف احادیث آئی ہیں اور کچھ جگہ پر یہ توضیح نہیں ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف، تو ایسی کتابوں کو پڑھنے کا کیا طریقہ ہے؟ اگر کوئی شخص کوئی ضعیف حدیث پڑھ کر اس کو صحیح حدیث کے طورپر بیان کرتا ہے تو گناہ گار کون ہوگا، مصنف یا قاری یعنی پڑھنے والا؟ اس کتاب کی ایک مثال فضائل اعمال ہے۔ (۴) بچوں کو ضعیف احادیث کیسے بتائی جائیں کیوں کہ وہ صحیح حدیث اور ضعیف حدیث میں فرق نہیں کرسکتے؟

    جواب نمبر: 6115

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1308=1119/ ب

     

    وہ ضعیف روایات جن کا مفہوم قرآن کی آیت سے ثابت ہو یا اسی طرح دیگر صحیح حدیث سے ثابت ہو، تو پھر قطعیت اور ثبوت میں وہ اسی آیت یا حدیث کے حکم میں ہوتی ہیں۔

    (۱) احادیث میں جو روایات متواترہ ہیں وہ تو مفید یقین ہوتی ہیں لیکن اس کے علاوہ جو احادیث ہیں، وہ مفید ظن ہیں، اور احادیث کے مفید ظن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہماری عقلوں سے راجح اور یقین کے قریب ہے نہ کہ وہ ظن جسے ہم اپنے عرف میں سمجھتے ہیں: قال الراغب: الظن اسم لما یحصل عن أمارة ومتی قویت أدّت إلی العلم ومتی ضعفت جدا لم یتجاوز حد التوھم، فالظن الذي یفیدہ خبر الآحاد إنما ھو القوي الراجح المقارب للیقین لا الضعیف المرجوح الذي لا یتجاوز حد التوھم وھو نوع من العلم الخ (مقدمة فتح الملھم:۸) وللہ در الإمام فخر الإسلام: حیث قال: فصار المتواتر یوجب علم الیقین والمشھور علم المطمانینة وخبر الواحد علم غالب الرأي (مقدمة فتح الملھم:۸)

    (۲) اگر کوئی ضعیف حدیث فضیلت عمل کے اندر وارد ہوئی ہے تو وہاں صحیح وضعیف کی بحث چھیڑنی ہی نہیں چاہیے کیوں کہ فضائل اعمال کے اندر ضعیف حدیث چل جاتی ہیں اور محدثین سلف کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ فضیلت عمل کے اندر ضعیف حدیث میں تساہل سے کام لیتے تھے، البتہ احکام اور عقائد والی احادیث میں خوب تحقیق کرلینی چاہیے۔ قال عبد الرحمن المہدي إذا روینا عن النبي في الحلال والحرام والأحکام شدّدنا في الأسانید وانتقدنا في الرجال وإذا روینا في الفضائل والثواب والعقاب سھلنا في الأسانید وتسامحنا في الرجال (مقدمة فتح الملھم:۸)

    (۳) اگر وہ کتاب فضائل کے اندر لکھی ہے اور وہ بھی اعمال کے فضائل، جیسا کہ فضائل اعمال ہے تو پھر اوپر ہم نے لکھ دیا ہے کہ محدثین کرام کا چوں کہ یہ معمول رہا ہے کہ وہ فضائل اعمال کے اندر وارد ہونے والی ضعیف احادیث میں قدرے تسامح سے کام لیتے تھے، پس اسی طرح وہ کتابیں بھی ہیں۔ البتہ اگر احکام کی کتابوں میں اس طرح کی احادیث ہوں تو پھر جس حدیث کے بارے میں آپ کو شبہ ہو اس کو ارسال فرمائیں۔

    (۴) فضیلت عمل کے سلسلے میں صحیح وضعیف کی تفریق کرنا ہی نہیں چاہیے، اس لیے بچوں کو فضیلت عمل والی حدیث بلا تفصیل صحیح وضعیف بتادینے میں کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ حدیث موضوع نہ ہو۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند