• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 610863

    عنوان: مغرب سے پہلے دو ركعت پڑھنا احناف كے نزدیك كیوں مكروہ ہے؟

    سوال:

    سوال : صحیح بخاری کتاب: اذان کا بیان باب: باب: اس بیان میں کہ اذان اور تکبیر کے درمیان کتنا فاصلہ ہونا چاہیے؟ حدیث نمبر: 625 حدیث نمبر: 625 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ عَامِرٍ الْأَنْصَارِيَّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ الْمُؤَذِّنُ إِذَا أَذَّنَ قَامَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْتَدِرُونَ السَّوَارِيَ حَتَّى يَخْرُجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُمْ كَذَلِكَ يُصَلُّونَ الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَكُنْ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ شَيْءٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عُثْمَانُ بْنُ جَبَلَةَ :‏‏‏‏ وَأَبُو دَاوُدَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُعْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏لَمْ يَكُنْ بَيْنَهُمَا إِلَّا قَلِيلٌ. میں نے یہ سوال کیا تھا کہ صحابہ نے رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے سامنے مغرب سے پہلے دو رکعت نماز پڑھی اور آپنے منع نہیں فرمایا اسکا جواب آپ کی طرف سے یہ آیا ( twa: 879-751/B=07/1443 ) کہ آپ کی پیش کردہ حدیث ضعیف ہے جبکہ یہ حدیث بخاری کی تھی ہمیں یہ سمجھ نہیں آرہا کہ صحیح حدیث کو ضعیف کیسے کہا جارہا ہے جبکہ ایک فتوی دینے میں کافی وقت لیا جاتا ہے پھر دوسرے مفتی صاحب بھی اس کی تصحیح کرتے ہیں اور الجواب الصحیح لکھ دیتے ہیں۔

    جواب نمبر: 610863

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 954-170T/B=10/1443

     مغرب سے پہلے دو ركعت پڑھنا احناف كے نزدیك مكروہ ہے۔ حضرات شوافع كے نزدیك ایك قول كے مطابق مباح اور دوسرے قول كے مطابق مستحب ہے۔ حضرات مالكیہ كے نزدیك مستحب نہیں ہے‏۔ حنابلہ كے نزدیك جائز ہے مگر سنت نہیں ہے۔ اور بعض حضرات اسے منسوخ مانتے ہیں۔ جس طرح ائمہ فقہاء كے درمیان اختلاف ہے اسی طرح صحابہ كرام كے درمیان بھی اختلاف ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ابوداؤد میں روایت ہے عن طاؤس قال سئل ابن عمر من الركعتين قبل المغرب فقال مارأيت أحداً على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يصليها. بخاری شریف كی حدیث بھی صحیح ہے اور ابوداؤد كی حدیث بھی صحیح ہے۔ جب دو صحیح روایتوں میں تعارض ہوجائے تو صحابہ كرام كا عمل دیكھا جائے گا تو حضرت ابوبكر اور حضرت عمر جو اكابر صحابہ میں سے ہیں یہ لوگ مغرب سے پہلے دو ركعت نہیں پڑھتے تھے۔ اور جن روایتوں میں صلوا قبل المغرب ركعتين. اس كے اخیر میں یہ بھی ہے لمن شاء یعنی اختیار دیا گیا‏، وجوب نہ رہا۔ اور بعض روایتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كا پڑھنا مذكور ہے تو اس كے بارے میں طبرانی نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت بھی ہے كہ ہم نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی ازواج مطہرات سے پوچھا كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب سے پہلے دو ركعت نماز پڑھتے تھے تو انہوں نے منع فرمایا۔ اور بعض روایتوں میں یوں آیا ہے كہ حضرت ام سلمہ نے فرمایا كہ ایك دفعہ پڑھی تھی تو ہم نے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا كہ عصر سے پہلے والی دو ركعت میں نے پڑھی ہے۔ بہرحال انھیں احادیث سے مغرب سے پہلے دو ركعت پڑھنے كی نفی معلوم ہوتی ہے اس لیے احناف نے اسی كو یعنی نہ پڑھنے كو ترجیح دی ہے۔ پچھلے فتوے میں ہم نے بخاری شریف كی حدیث كو ضعیف كہہ دیا یہ ہماری زلۃ قلم ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند