• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 60919

    عنوان: میرا سوال یہ ہے کہ ہم لوگ یہ بات بہت کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کا میں مولا اس کا علی مولا، اس کا کیا مطلب ہے؟ اور جولوگ یہ کہتے ہیں وہ یہ باور کراتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ مشکل کشا ہیں اور ان کو تمام خدائی اختیارات ہیں ، کیا ایسا کہنا ٹھیک ہے؟اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو علیہ وسلم کہتے ہیں ، کیا ایسا کہنا درست ہے؟براہ کرم، قرآن وحدیث کی روشنی میں تفصیلی جواب دیں۔

    سوال: میرا سوال یہ ہے کہ ہم لوگ یہ بات بہت کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کا میں مولا اس کا علی مولا، اس کا کیا مطلب ہے؟ اور جولوگ یہ کہتے ہیں وہ یہ باور کراتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ مشکل کشا ہیں اور ان کو تمام خدائی اختیارات ہیں ، کیا ایسا کہنا ٹھیک ہے؟اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو علیہ وسلم کہتے ہیں ، کیا ایسا کہنا درست ہے؟براہ کرم، قرآن وحدیث کی روشنی میں تفصیلی جواب دیں۔

    جواب نمبر: 60919

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1479-1492/L=1/1437-U نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ”جس کا میں مولا ہوں علی اس کے مولا ہیں“ کا مطلب یہ ہے کہ جس کا میں محبوب ہوں اس کے علی بھی محبوب ہیں۔ ففي المرقاة: بأن المولی بمعنی المحبوب وہو کرم اللہ وجہہ․ سیدنا وحبیبنا ولہ معانٍ أخر تقدمت ومنہ الناصر وأماثلہ (۱۱/۲۵۸) حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مشکل کشا سمجھنا (ان سے بوقت ضرورت فریاد کرنا) اور یہ کہنا کہ ان کو خدائی اختیارات حاصل ہیں شرک ہے، صحابہٴ کرام کو ”علیہ السلام“ کہنا فی نفسہ جائز ہے، لیکن صحابہ کے لیے رضی اللہ عنہ کا استعمال بہتر ہے، البتہ صحابہٴ کرام کے لیے استقلالاً لفظ صلاة کا استعمال ناجائز ہے۔ مستفاد از: محمودیہ ۱۹/ ۱۳۸ تا ۱۶۲ ط دارا لمعارف دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند