• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 609175

    عنوان:

    ’’من صلی رکعتی الفجر فی بیتہ یوسع لہ فی رزقہ ‘‘ کیا یہ حدیث ہے

    سوال:

    من صلی رکعتی الفجر فی بیتہ یوسع لہ فی رزقہ ویقل المنازع بینہ وبین أہلہ ویختم لہ بالإیمان Whoever offers the two (Sunnah) of Fajr in his home will have his sustenance

    expanded, the quarrels with his family decreased and he will die with iman. (Maraqil Falah, pg.384-385)

    کیا یہ حدیث صحیح ہے ، کیا ہم اس حدیث کو شیئر کر سکتے ہیں؟ علامہ سخاوی نے اس حدیث کو من گھڑت قرار دیا ہے ۔ (العجویبات المردیہ، جلد 3 ص 916، حدیث: 247) فتاویٰ عثمانی میں لکھا ہوا ہے کہ بعد کے فقہائے کرام نے حکم دیا ہے سنت موکدہ مسجد میں پڑھی جائے تو اگر ہم سنت مؤکدہ گھر میں پڑھتے ہیں تو کیا ہم سورہ نساء کی آیت 59 کے خلاف ہیں؟ اولیٰ امر منکم کے ؟

    جواب نمبر: 609175

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:797-141/TL=6/1443

     مذکورہ بالا حدیث درست نہیں ہے، اس کو شیئر کرنا بہی درست نہیں ہے ۔ قال السخاوی فی الأجوبة المرضیة : لا أصل لہ.(3/916) (2) فرائض کے علاوہ سنن مؤکدہ وغیرہ کا گھر میں پڑھنا افضل ہے؛ البتہ اگر گھر جاکر پڑھنے میں سنن کے فوت ہوجانے یا خشوع وخضوع میں کمی ہوجانے کا اندیشہ ہو تو مسجد میں پڑھ لینا بہتر ہوگا ، فقہاء نے سنن کو مسجد میں پڑھنا اسی وقت افضل کہا ہے جبکہ مذکورہ بالا دونوں خرابیوں میں سے کوئی خرابی پائی جائے، علی الاطلاق یہ حکم نہیں ہے اور گھر میں سنن وغیرہ کا پڑھنا (أولی الأمر منکم ) کے حکم کے خلاف نہیں ہے بلکہ اصل حکم گھر میں ہی پڑھنے کا ہے الا لعوارض.

    والأفضل فی النفل غیر التراویح المنزل إلا لخوف شغل عنہا والأصح أفضلیة ما کان أخشع وأخلص.(الدر المختار) وفی رد المحتار: (قولہ والأفضل فی النفل إلخ) شمل ما بعد الفریضة وما قبلہا لحدیث الصحیحین علیکم الصلاة فی بیوتکم فإن خیر صلاة المرء فی بیتہ إلا المکتوبة وأخرج أبو داود صلاة المرء فی بیتہ أفضل من صلاتہ فی مسجدی ہذا إلا المکتوبة وتمامہ فی شرح المنیة، وحیث کان ہذا أفضل یراعی ما لم یلزم منہ خوف شغل عنہا لو ذہب لبیتہ، أو کان فی بیتہ ما یشغل بالہ ویقلل خشوعہ، فیصلیہا حینئذ فی المسجد لأن اعتبار الخشوع أرجح.(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 2/ 22)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند