• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 608471

    عنوان:

    تجدید دین والی حدیث کا مطلب

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں علما ء و مفتیان اکرام ذیل کے مسئلہ کے متعلق کہ ہم نے سنا ہے کہ کوء بھی دین کی محنت سو سال قائم رہتی ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ مجتہد پیدا فرماتے ہیں اور ان پر کام کو کھولتے ہیں اور وہ محنت بہت مقبول ہوتی ہے البتہ سابقہ محنت ختم نہیں ہوتی لیکن اس کا پیمانہ کم ہوجاتا ہے سو سال کی مدت کے بعد۔ برائے مہربانی مندرجہ بالا بات کی وضاحت فرمادیجیے کہ یہ صحیح ہے یا غلط؟

    جزاک اللہ خیر

    جواب نمبر: 608471

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:415-176/B-Mulhaqa=5/1443

     اس موضوع سے متعلق ابوداؤد، مستدرک حاکم اور طبرانی کی معجم الاوسط وغیرہ میں اس طرح کے الفاظ وارد ہوئے ہیں:

    عن أبی ہریرة رضی اللہ عنہ، ولا أعلمہ إلا عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، قال: إن اللہ یبعث إلی ہذہ الأمة علی رأس کل مائة سنة من یجدد لہا دینہا. (سکت عنہ الذہبی فی التلخیص) (المستدرک علی الصحیحین للحاکم 4/ 567، رقم:8592)

    شارح ابوداؤد حضرت سہارنپوری نے بذل میں تحریر فرمایا کہ ہر صدی کے شروع یا اخیر میں جب علم گھٹ جاتا ہے ، سنت پر عمل کم ہوجاتا ہے ، جہالت اور بدعت کی بہتات ہوجاتی ہے ، اس وقت اللہ تعالی ایسے شخص یا ایسے افراد کو بھیجتا ہے جو سنت کو زندہ کرے اور بدعت کو مٹائے ۔ مزید تشریح کے لیے شروح حدیث (مثلا: مرقات وغیرہ) کا مطالعہ کریں ۔

    قال: إن اللہ یبعث لہذہ الأمة علی رأس کل مئة سنة) أی انتہائہ أو ابتدائہ إذا قَلَّ العلم والسنَّة، وکثر الجَہْلُ والبدعة (من یجدد لہا) أی لہذہ الأمة (دینَہا) أی بیَّن السنَّة من البدعة، ویکثر العلم، ویعز أہلہ، ویقمع البدعہَ، ویکسر أہلہا.(بذل المجہود :12/336، رقم:4291)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند