• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 607618

    عنوان:

    اپنا حق چھوڑنے کی فضیلت

    سوال:

    سوال : مسئلہ یہ پوچھنا تھا کہ میں نے اپنے کزن کے ساتھ مشترکہ کاروبار کیا کچھ ٹائم کہ بعد میرے کزن نے اپنے ایک دوست سے پیسے لیکرسرمایہ کاری کی کزن کا دوست نوکری کرتا ہے اور طے یہ ہوا تھا کہ ہم دونوں کو کام کرنا ہے (مجھے اور میرے کزن کو) اور نفع تین حصّوں میں تقسیم ہوگا اُسکا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا جب تک وہ نوکری جاری رکھیگا۔ لیکِن وہ ٹھوڑی دیر کے لئے آتا تھا کام سیکھنے سمجھنے کے لیے کچھ ٹائم کہ بعد کزن اور اسکے دوست نے با قاعدہ منصوبہ بندی کر کے ماحول خراب کیا اور کزن نے اُس کے دوست کہ ساتھ ملکر مجھے فارغ کردیا میرے دو لاکھ روپے بھی نہیں دیے جو کہ میری طرف سے سرمایہ تھا فارغ کرنے پر تقسیم منصفانہ نہیں کررہے تھے تو میں نے مجبور ہوکر اوراُن دونوں کے دباؤ میں آکر اپنا سرمایہ چھوڑ دیا یہ بول کر کہ مجھے کچھ نہیں لینا اور وہ رضامند بھی ہوگئے پھر ہمارے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس میں یہ طے پایا کہ معاملہ یہی پر ختم کرتے ہے یہ بات اور معاہدہ میرے کہنے پر ہوا کیونکہ میں یہ چاہتا تھا کہ معاملہ گھر تک نہ جا? ( رشتے دار ی خراب ہونے کے پیشے نظر) میرے والد اور کزن کی والدہ سگے بھائی بہن ہے اور اُس معاہدہ میں یہ شق بھی ہے کہ ہم تینوں(میں میرا کزن اور اُسکا دوست) کہ معاملات حل ہو گئے اور میرے کزن کی تقسیم کہ حساب سے (جو کہ منصفانہ بھی نہیں تھی اور غیر شرعی تھی مفتی صاحب کہ حساب سے نہیں تھی) جو مجھے مل رہا تھا میں نے جان چھڑوانے کے لئے کزن کے دوست کو دے دیا یہ سب ہونے کہ بعد میں بہت بے چین ہوں آپ فتویٰ کی صورت میں مجھے مطمئن کردیں کہ اللہ کہ وہاں مجھے اِسکا بدلہ ملے گا؟اور ان دونوں کی دنیا اور آخرت میں کیا سزا ہے صورت مسئلہ کہ حساب سے تا کہ میں سکون میں آجاؤں جواب کامنتظرہوں ۔ جزاکم اللہ

    جواب نمبر: 607618

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:156-90/TD-Mulhaqa=6/1443

     صورت مسئولہ میں اگر آپ حق بجانب تھے اور آپ نے محض رشتہ داری اور نزاع سے بچنے کے لیے اپنا حق چھوڑ دیا تو آپ کو اس کا اجر انشاء اللہ ضرور ملے گا، حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اس شخص کے لیے جنت کے اندر ایک گھر کی ضمانت لیتا ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود لڑائی جھگڑا چھوڑ دے۔

    عن أنس - رضی اللہ عنہ - قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: " من ترک الکذب وہو باطل بنی لہ فی ربض الجنة، ومن ترک وہو محق بنی لہ فی وسط الجنة، ومن حسن خلقہ بنی لہ فی أعلاہا. رواہ الترمذی، وقال: ہذا حدیث حسن۔ قال الملا علی القاری : ومن ترک المراء) : بکسر المیم أی: الجدال (وہو محق) أی: صادق ومتکلم بالحق (بنی لہ فی وسط الجنة) بفتح السین ویسکن أی: فی أوسطہا لترکہ کسر قلب من یجادلہ ودفعہ رفعة نفسہ، وإظہار نفاسة فضلہ۔ ( مرقاة المفاتیح مع مشکاة المصابیح، رقم : ۴۸۳۲)

    اور جب آپ نے اپنا حق چھوڑ دیا ہے تو آپ کزن اور اس کے دوست کو معاف کردیں تاکہ ان پر دنیا اور آخرت میں کوئی وبال نہ آئے، اگر ان کو معاف نہیں کیا گیا تو ان کے ذمہ آپ کا حق باقی رہے گا اور روز قیامت ان سے اس کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے، اس لیے کہ حدیث میں ایسے شخص پر بھی بہت وعید آئی ہے جس نے لوگوں کا حق مارا ہو اور ناحق مال کھایا ہو، ایک لمبی حدیث میں ہے: حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میری امت میں حقیقی مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن اس حال میں آئے کہ اس نے نمازیں بھی پڑھی ہوں، روزے بھی رکھے ہوں، زکات بھی ادا کی ہو؛ لیکن اس کے ساتھ اس نے کسی کو گالی دی تھی، کسی پر تہمت لگائی تھی، کسی کا ناحق مال کھایا تھا، ناحق خون بہایا تھا، کسی کو مارا تھا، اب قیامت میں ایک اس کی یہ نیکی لے گیا اور دوسرا دوسری نیکی لے گیا، یہاں تک کہ اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں؛لیکن پھر بھی حق دار بچ گئے، تو پھر باقی حق داروں کے گناہ اس پر لاد دیے جائیں گے، یہاں تک کہ وہ گناہوں میں ڈوب کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔

    "عن أبی ہریرة، أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، قال: أتدرون ما المفلس؟ قالوا: المفلس فینا من لا درہم لہ ولا متاع، فقال: إن المفلس من أمتی یأتی یوم القیامة بصلاة، وصیام، وزکاة، ویأتی قد شتم ہذا، وقذف ہذا، وأکل مال ہذا، وسفک دم ہذا، وضرب ہذا، فیعطی ہذا من حسناتہ، وہذا من حسناتہ، فإن فنیت حسناتہ قبل أن یقضی ما علیہ أخذ من خطایاہم فطرحت علیہ، ثم طرح فی النار۔ ( صحیح مسلم، رقم: ۲۵۸۱)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند