• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 606953

    عنوان:

    داعی الی الاثم اگر توبہ کرلے توتوبہ قبول ہوگی یا نہیں؟

    سوال:

    میرا ایک سوال ہے ، صدقہ جاریہ سے متعلق جیسا کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بیان ہے کہ حضرت ابوہریرہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب انسان مرجاتا ہے تو تین اعمال کے علاوہ تمام اعمال منقطع ہوجاتے ہیں صدقہ جاریہ یا وہ علم جس سے نفع اٹھایا جائے یا نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرتی رہے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر: 4223 اگر کسی شخص نے زندگی میں برے اعمال کیے ہوں مثلاً گانا بجانا، فحاشی پر مبنی فلمیں بنانا یا سودی کاروبار بنائے ہوں اور لوگوں کو بھی یہ ہنر سکھایا ہو اور مرنے سے پہلے اپنے گناہوں کا اعلانیہ اقرار نا کیا ہو بلکہ دوسروں کو دلائل دیتا یہ کام بالکل صحیح ہے اور ان اعمال کو صحیح اس کی مرنے کہ بعد لوگ اس کے گانے سنے یا فلمیں دیکھیں یا پھر اسی کے قائم کردہ اصولوں کے مطابق سودی کاروبار کریں تو کیا ان سب کا گناہ مرنے کے بعد بھی اس کو ملتا رہے گا کہ یا پھر نہیں۔ یا یہ حدیث صرف اچھے اعمال کے حوالے سے لی جائے گی کیونکہ حدیث میں برے اعمال کے جاری کا ذکر نہیں کیا گیا۔ برائے کرم حوالے کہ ساتھ جواب دیجیے گا ۔ ساتھ میں ایصال ثواب کی بھی وضاحت کیجیے گا اگر ہمارے عمل سے یعنی قرآن خوانی،صدقہ اور دعا وغیرہ سے میت کی مغفرت ہوتی ہے یا نہیں؟ اگر اوپر والی حدیث کہ مطابق تین باتوں کے علاؤہ اعمال منقتع ہو جاتے ہیں لیکن نماز جنازہ تو ہر اجنبی ادا کرتا ہے اور فاتح پڑھ کر دعا کرتا ہے ، کیا ان کی وجہ اس اعمال بدمیں کمی واقع نہیں ہو گی ؟ نمازجنازہ کی روح پھر کیا ہے ؟اگر میت کے اعمال منقتع ہوگئے تو اوپر والی تین شرائط موجود نا ہوئی تو دوسرے لوگوں کی دعائیں اس کے کام نہیں آئیں گی ؟

    جواب نمبر: 606953

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:54-62T/B-Mulhaqa=4/1443

     (الف) متعدد احادیث میں یہ مضمون آیا ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی ناجائز طریقہ رائج کرے یا کسی گناہ کے ایجاد کا ذریعہ بنے تو جو لوگ اس پر عمل کریں گے ، انھیں تو اس کا گناہ ملے گا ہی، جو اس گناہ کے محرک اور ذریعہ ہیں انھیں بھی برابر کا گناہ ملے گا؛ البتہ شراح حدیث نے یہ ذکر کیا ہے کہ اگر ایسا شخص سچی پکی توبہ کرلے تو راجح یہ ہے کہ اس کی توبہ قبول ہوجائے گی اور بعد توبہ گناہ کی نسبت اس کی طرف نہ ہو گی؛ بلکہ گناہ صرف کرنے والے کو ہوگا ۔ تنبیہ:

    لو تاب الداعی للإثم وبقی العمل بہ فہل ینقطع إثم دلالتہ بتوبتہ لأن التوبة تجب ما قبلہا أو لا لأن شرطہا رد الظلامة والإقلاع وما دام العمل بدلالتہ موجودا فالفعل منسوب إلیہ، فکأنہ لم یرد ولم یقلع؟ کل محتمل، ولم أر فی ذلک نقلا والمنقدح الآن الثانی اہ. والأظہر الأول وإلا فیلزم أن نقول بعدم صحة توبتہ، وہذا لم یقل بہ أحد (مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح 1/ 242)

    (ب) لوگ جو ایصالِ ثواب کرتے ہیں، وہ مرحومین کو پہنچتا ہے ، اسی طرح نماز جنازہ کے توسط سے جو دعا کرتے ہیں، وہ بھی مرحومین کو پہنچتی ہے ، ان کی وجہ سے آخرت میں انھیں سہارا ملتا ہے ، حضرت ابوہریرہ  کی حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کا اپنا کردہ صرف انہی صورتوں میں بعد الموت اسے فائدہ پہنچاتا ہے ، رہے دوسرے لوگوں کی طرف سے ایصال ِثواب وغیرہ تو اس کے فوائد سے منتفع ہونے کی اس میں نفی نہیں ہے ؛ بلکہ مستقل دلائل سے اس کا فائدہ پہنچنا ثابت ہے ۔

    وعن أبی ہریرة - رضی اللہ عنہ - قال؟ قال رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم: " إذا مات الإنسان انقطع عنہ عملہ إلا من ثلاثة أشیاء: صدقة جاریة، أو علم ینتفع بہ، أو ولد صالح یدعو لہ ". رواہ مسلم.[مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح 1/ 285، رقم: 203) یعنی: إذا مات الإنسان لا یکتب لہ أجر أعمالہ لأنہ جزاء العمل وہو منقطع بموتہ إلا فعلا دائم الخیر مستمر النفع مثل وقف أرض أو تصنیف کتاب أو تعلیم مسألة یعمل بہا، أو ولد صالح، وجعل الولد من العمل لأنہ السبب فی وجودہ اہ.

    ولا تنافی بین ہذا الحصر وبین قولہ علیہ الصلاة والسلام: " من سن فی الإسلام سنة حسنة فلہ أجرہا وأجر من عمل بہا إلی یوم القیامة " لأن السنة المسنونة من جملة المنتفع بہ، وکذا لا تنافی بینہ وبین قولہ علیہ الصلاة والسلام: " کل میت یختم علی عملہ إلا المرابط فی سبیل اللہ فإنہ ینمو لہ عملہ إلی یوم القیامة " لأن النامی من عمل المرابط ما قدمہ فی حیاتہ، وأما الثلاثة المذکورة فإنہا أعمال تحدث بعد وفاتہ فلا تنقطع عنہ لأنہ سبب تلک الأعمال، فہذہ الأشیاء یلحقہ منہا ثواب صار خلاف أعمالہ الذی مات علیہا، أو لأن معناہ أن الرجل إذا مات لا یزاد فی ثواب ما عمل ولا ینقص منہ شیئا إلا الغازی، فإن ثواب مرابطتہ ینمو ویتضاعف، ولیس فیہ ما یدل علی أن عملہ یزاد بضم غیرہ أو لا یزاد، وقیل: یمکن أن تجعل المرابطة داخلة فی الصدقة الجاریة إذ المقصود نصرة المسلمین اہ. وہو الأظہر (رواہ مسلم) ․ (مرقاة المفاتیح:1/ 285، بیروت)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند