• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 606825

    عنوان:

    تدفین کا مسنون طریقہ کیا ہے؟

    سوال:

    ہمارے یہاں جنازے کو قبر میں اتار نے کے بعد چاروں جانب لکڑی گاڑ کر چاروں قل پڑھتے ہیں پھر نکال لیتے ہیں، کیا یہ جائز ہے ؟

    جواب نمبر: 606825

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:20-5T/D-Mulhaqa=3/1443

     جنازے کو قبر میں اتارنے کے بعد چاروں جانب لکڑی گاڑ کر چاروں قل پڑھنا اور پھر لکڑی نکالنا؛ اس عمل کا شرعا کوئی ثبوت نہیں ہے ، تدفین کے بعد احادیث وآثار سے جو عمل ثابت ہے وہ یہ ہے کہ میت کے سرہانے کھڑے ہوکر سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات المّ سے مفلحون تک اور پیر کی جانب سورہ بقرہ کی آخری آیات آمن الرسول سے اخیر آیت تک پڑھا جائے ۔

    قال الحصکفی: وجلوس ساعة بعد دفنہ لدعاء وقرائة بقدر ما ینحر الجزور ویفرق لحمہ۔ قال ابن عابدین: (قولہ: وجلوس إلخ) لما فی سنن أبی داود کان النبی - صلی اللہ علیہ وسلم - إذا فرغ من دفن المیت وقف علی قبرہ وقال: استغفروا لأخیکم واسألوا اللہ لہ التثبیت فإنہ الآن یسأل وکان ابن عمر یستحب أن یقرأ علی القبر بعد الدفن أول سورة البقرة وخاتمتہا۔ ( الدر المختار مع رد المحتار : ۲۳۷/۲، دار الفکر، بیروت ) وعن عبد اللہ بن عمر قال: سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول: إذا مات أحدکم فلا تحبسوہ وأسرعوا بہ إلی قبرہ ولیقرأ عند رأسہ فاتحة البقرة وعند رجلیہ بخاتمة البقرة . رواہ البیہقی فی شعب الإیمان. وقال: والصحیح أنہ موقوف علیہ ۔ قال الملا علی القاری : (عند رأسہ فاتحة البقرة) أی: إلی المفلحون. (وعند رجلیہ بخاتمة) وفی نسخة خاتمة. (البقرة) أی: من. (آمن الرسول) إلخ. قال الطیبی: لعل تخصیص فاتحتہا لاشتمالہا علی مدح کتاب اللہ، وأنہ ہدی للمتقین، الموصوفین بالخلال الحمیدة من الإیمان بالغیب، وإقامة الصلاة، وإیتاء الزکاة، وخاتمتہا لاحتوائہا علی الإیمان باللہ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ، وإظہار الاستکانة، وطلب الغفران والرحمة، والتولی إلی کنف اللہ تعالی وحمایتہ.۔ ( مرقاة المفاتیح مع مشکاة المصابیح ، رقم :۱۷۱۷، باب دفن المیت ، دار الفکر، بیروت )


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند