• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 606646

    عنوان:

    دست بوسی وقدم بوسی کرنا کیسا ہے؟ اور کن لوگوں کی کرنی چاہیے؟

    سوال:

    پیر،عالم،والدین کی قدم بوسی کرنا کیسا ہے ؟ اس کے بارے میں کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان کرام حوالے کے ساتھ جواب عنایت کریں عین نوازش ہوگی ۔

    جواب نمبر: 606646

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 211-176/B=03/1443

     دست بوسی اور قدم بوسی صرف ان لوگوں کی جائز ہے جو عالم باعمل نیک و صالح ہوں، یا عادل مسلمان بادشاہ ہو، یا کوئی دینی شرافت و بزرگی رکھتا ہو، ان کے علاوہ دوسروں کے لئے جائز نہیں۔

    دست بوسی کے واقعات تو بکثرت احادیث میں موجود ہیں۔ اور حاکم نے مستدرک میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے آپ کے سر مبارک کو اور قدموں کو بوسہ دیا۔ حاکم نے اس کو روایت کرکے اسے صحیح الاسناد فرمایا ہے۔

    ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے حضرت صفوان رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت آئی اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھوں اور دونوں پاوٴں کو بوسہ دیا۔ امام ترمذی اس کو روایت کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔

    مستدرک حاکم میں جلد: 3/254، میں ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کو غزوہٴ حنین میں بوسہ دیا جب کہ آپ سورای پر سوار تھے اور آپ کے قدم رکاب میں تھے۔

    نوٹ:۔ دست بوسی اور قدم بوسی کا جواز دیکھا گیا ہے، یہ اس وقت ہے جب کہ ہر طرح کے منکرات و محذورات سے خالی ہو۔ اگر اس میں غلو، تکبر، اعجاب، ایذا رسانی پائی جائے تو یہ فعل مکروہ ہوگا۔ اتفاقاً ہوجائے تو درست ہے، اہتمام و التزام بھی نہ ہونا چاہئے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند