• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 602288

    عنوان: مشہور روایات کا حکم درکار ہے 

    سوال:

    قبلہ مفتی صاحب، سوشل میڈیا پر یہ تین روایات گردش کرتی ہیں۔ لیکن ان کا حوالہ مذکور نہیں۔ بسا اوقات سننے کو بھی ملتی ہیں۔ مہربانی فرما کر ان کا مستند حوالہ عطا فرما دیں یا ان روایات پر حکم کی وضاحت کر دیں کہ صحیح ہیں، مقبول ہیں یا من گھڑت واقعات ہیں۔ بہت نوازش ہو گی۔ جزاک اللہ خیرا 1: لمبے ناخن پر شیطان سواری کرتا ہے ۔ اس پر حوالہ امام غزالی کی احیاء العلوم کا پیش کیا جاتا ہے ۔ 2: ایمان ، عقیدہ دیہات کی بوڑھی عورتوں سے سیکھو، یا دیہات کی بوڑھی عورتوں جیسا رکھو۔ 3: ایک طویل روایت ہے کہ: (پوسٹ کاپی پیسٹ کر رہا ہوں)۔ مسجد نبوی میں بلی کے بچے !! حضرت عمر سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک بلی نے مسجد نبوی کے صحن میں بچے دے دیئے ۔لہذا انہوں نے چند دوسرے صحابہ اکرام کے ہمراہ اس بلی اور بچوں کو صحن سے باہر کسی محفوظ مقام تک پہنچا دیا۔ اسی اثناء میں سرکار مدینہ محمد ﷺ مسجد میں تشریف لے آئے ۔ آپ ﷺ جب بلی اور بچوں کو غائب پایا تو پوچھا کہ وہ بلی اور بچے کہاں گئے ۔حضرت عمر نے عرض کیا " یا رسول اللہ ﷺان کو محفوظ مقام پر مسجد سے باہر منتقل کر دیا ہے " حضورﷺ نے ارشاد فرمایا" اس کو اور بچوں کو واپس اسی جگہ مسجد نبوی میں لا کر رکھو جہاں وہ پہلے تھی"لہذا حکم رسالت کی تعمیل ہوئی۔سرکاردوعالم نے ارشاد فرمایا"عمرٹھیک ہے کہ یہ ایک نجس جانور ہے میں بھی اس کو زچگی سے پیشتر حاملہ حالت میں دیکھا کرتا تھا اور پیار سے پچکار کر بھیج دیا کرتا تھا مگر زچگی کے بعد یہ بلی "ماں " بن گئی لہذا میں یہ قطعی پسند نہیں کرتا کہ جب تک اس کے بچے آنکھیں کھول کر خود چلنے کے قابل نہ ہوں اسے یہاں سے نکال دیا جائے " ۔ حضرت عمر  کے مطابق آپﷺ اپنے دست مبارک سے بلی کے بچوں کو دودھ پلاتے تھے ۔ مہربانی فرما کر ان روایات کی تحقیق مطلوب ہے ۔ سوشل میڈیا پر کئی بار نظروں سے گزری ہیں۔ شکریہ۔

    جواب نمبر: 602288

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:402-730/N=1/1443

     (۱): امام غزالی نے احیاء العلوم میں نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے حضرت ابوہریرہ سے فرمایا کہ ”اے ابوہریرہ! اپنے ناخن کاٹ لیا کرو؛ کیوں کہ ناخنوں کا جو حصہ بڑھ جاتا ہے، اس پر شیطان بیٹھتا ہے“؛ البتہ بعینہ یہ الفاظ حدیث کی کسی کتاب میں مجھے نہیں ملے، ہاں خطیب وغیرہ نے سند ضعیف سے تقریباً اس جیسا مضمون ایک دوسری روایت میں نقل کیا ہے۔

    الخامس: الأظفار، وتقلیمھا مستحب لشناعة صورتھا إذا طالت ولما یجتمع فیھا من الوسخ، قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”یا أبا ھریرة! قلم أظفارک؛ فإن الشیطان یقعد علی ما طال منھا“ (إحیاء العلوم للغزالي، النوع الثاني في ما یحدث في البدن من الأجزاء، وھي ثمانیة، ۱: ۱۴۰، ط: إندونیسیا)۔

    قال العراقي: وأخرج الخطیب في الجامع من حدیث جابر بإسناد ضعیف بلفظ: ”قصوا أظافیرکم؛ فإن الشیطان یجري ما بین اللحم والظفر“، قلت: ورواہ ابن عساکر أیضاً في تاریخہ من حدیث جابر إلا أن لفظہ ولفظ الخطیب: ” خللوا أصابعکم وقصوا أظفارکم“ والباقي سواء (إتحاف السادة المتقین بشرح إحیاء علوم الدین، ۲: ۴۱۰، ط: موٴسسة التاریخ العربي، بیروت)۔

    (۲): یہ غالباً اس روایت کا ترجمہ ہے: ”علیکم بدین العجائز“، اور اس روایت کو محدثین نے موضوع قرار دیا ہے (مقاصد حسنہ اور اسرار مرفوعہ وغیرہ)۔

    (۳): یہ روایت مجھے نہیں ملی ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند