• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 601664

    عنوان:

    كیا حدیث میں دھوپ میں بیٹھنے سے منع كیا گیا ہے؟

    سوال:

    مستدرک حاکم کی حدیث نمبر ۸۲۶۴میں اللہ کے نبی نے ارشاد فرمایا کہ دھوپ میں بیٹھنے سے بچو اس سے کپڑے خراب ہوتے ہیں،بدن سے بدبو پھوٹنے لگتی ہے،دبی ہوی بیماریاں ابھر آتی ہے۔اب میرا سوال یہ ہے کہ اس حدیث کی واضح تشریح کیا ہے جبکہ کتابوں میں آتا ہے کہ صبح کی دھوپ انسانی جسم کے لے مفید ہوتی ہے اور یہ بات حدیث کے خلاف آ رہی ہے ۔حدیث میں کس طرح کی دھوپ میں بیٹھنے سے منع کیا گیا ہے۔اس حدیث کی تسلی بخش تشریح کر دیجے اور اگر دھوپ میں بیٹھنے کی کوی حدیث ہو تو ارسال فرماے ۔مہربانی ہوگی۔

    جواب نمبر: 601664

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 396-57T/L=06/1442

     مستدرک حاکم میں جو یہ روایت ہے: عن ابن عباس رضی اللہ عنہما، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”إیاکم والجلوس فی الشمس فإنہا تبلي الثوب، وتنتن الریح، تظہر الداء الدفین“ أخرجہ الحاکم فی المستدرک، رقم: 8264، کتاب الطب۔ اس حدیث کو حافظ ذہبی نے مستدرک کی تلخیص 4/456، میں موضوع کہا ہے؛ البتہ اس کے علاوہ اور دوسری روایات سے اس طرح کا مضمون ثابت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی جسم کو طبی نقصان سے بچانے کے کچھ دھوپ اور کچھ سایہ میں بیٹھنے سے منع فرمایا ہے نیز بعض موقوف روایات میں یہ بھی مذکور ہے کہ شیطان اس طرح بیٹھتا ہے؛ اس لیے جہاں پر انسانی جسم کو نقصان کا اندیشہ ہو، وہاں اس طرح کی کیفیت میں بیٹھنے سے احتیاط کرنا چاہئے، لیکن جہاں پر نقصان کا کوئی اندیشہ نہ ہو، یا ایسی جگہ کے علاوہ بیٹھنے کے لئے کسی دوسری جگہ کا کوئی نظم نہ ہو تو اس طرح کی جگہ میں بیٹھنے کی گنجائش ہوگی؛ کیونکہ ذکر کردہ حکم وجوبی نہیں ہے؛ بلکہ یہ حکم ارشاد، نصیحت اور خیر خواہی پر مبنی ہے، جیسا کہ شراح حدیث نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ عن محمد بن المنکدر قال: حدثني من سمع ابا ہریرة یقول: قال ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم: اذا کان احدکم فی الشمس وقال مخلد فی الفیء فقلص عنہ الظل وصار بعضہ فی الشمس وبعضہ فی الظل فلیقم (سنن ابی داوٴد: 4/405، ط: دارالکتاب العربی، بیروت) وعن ابی ہریرة - رضی اللہ عنہ - ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: اذا کان احدکم فی الفیء): بفتح فسکون ای: فی ظل (فقلص) اي: ارتفع (عنہ الظل) اي: بعضہ وفیہ تفتن (فصار بعضہ فی الشمس، وبعضہ فی الظل) بیان لما قبلہ (فلیقم) اي: فیتحول منہ مکان آخر یکون کلہ ظلا او شمسا؛ لان الانسان اذا قعد ذالک المقعد فسد مزاجہ لاختلاف حال البدن من الموٴثرین المتضادین، کذا قالہ بعض الشراح، وتبعہ ابن الملک، ولانہ خلاف العدالة الموجبة لاختلال الاعتدال مع انہ تشبہ بمجلس المجانین، ونظیرہ النہي عن لبس احدی النعلین، والاولي ان یعلل بما عللہ الشارع من قولہ الاتي: فانہ مجلس الیشطان۔ (رواہ ابو داوٴد) اي مرفوعا۔ (مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح: 7/2983) قلت محل النہي المداومة علیہ واتخاذہ عادة بحیث یوٴثر فی البدن تاثیرا یتولد منہ المحذور المذکور اما وقوع ذالک مرة سبیل الاتفاق فغیر ضار علی انہ لیس فیہ انہ راہ کذالک (فیض القدیر شرح الجامع الصغیر: 1/544) فالقعود فیہا منہی عنہ ارشاد لضررہ (ک عن ابن عباس) قال الذہبی ہذا من وضع الطحان (التیسیر بشرح الجامع الصغیر: 1/406)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند