• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 601533

    عنوان:
    کیا كسی صحابی/ صحابیہ نے اللہ کے رسول کا بول پی لیا تھا ۔؟ 

    سوال:

    (1)  کیا ایک صحابی نے اللہ کے رسول کا بول پیا تھا ۔؟ اگر ایسا ہوا ہے تو اس کی توجیح کیا ہوگی؟ اور

    (2)  دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص کا کاروبار ہے اور اس سے حلال کمائی آتی ہے اور ایک دوسرا کام بھی ہے جس سے حرام کمائی آتی ہے تو اب ایسے شخص کا کھانا کھانا کیسا ہے ؟ جواب دیکر ممنون و مشکور ہوں۔

    جواب نمبر: 601533

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:319-46T/sd=6/1442

     (۱)امام طبرانی نے ”المعجم الکبیر“ میں حضرت اُم ایمن رضی اللہ عنہا کا ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو ایک مٹی کے برتن میں پیشاب فرمایا تھا اور ام ایمن کو رات میں پیاس لگ گئی تھی تو غلطی سے پیشاب کو پانی سمجھ کر پی لیا اور جب صبح ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ام ایمن سے فرمایا کہ اس پیشاب کو پھینک دو، تو اس کے جواب میں ام ایمن نے کہا اللہ کی قسم میں نے اس کو پی لیا، اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کے ڈاڑھ دانت تک نظر آئے پھر فرمایا کہ تمھارے پیٹ میں کبھی شکایت محسوس نہیں ہوگی۔ عن أم أیمن، قالت: قام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من اللیل إلی فخارة فی جانب البیت فبال فیہا فقمت من اللیل، وأنا عطشانة فشربت ما فیہا، وأنا لا أشعر فلما أصبح النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: یا أم أیمن، قومی فأہریقی ما فی تلک الفخارة قلت: قد واللہ شربت ما فیہا، فضحک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حتی بدت نواجذہ، ثم قال: أما إنک لا تتجعین بطنک أبدًا (المعجم الکبیر للطبرانی: ج /۲۵ ۸۹، مکتبہ ابن تیمة القاہرة) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک صحابیہ سے حضور ﷺ کا بول پینا ثابت ہے اور اس کی توجیہ یہ ہے کہ محدثین و فقہائے کرام کی ایک بڑی جماعت؛ بلکہ حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب دیوبندی سابق مفتی اعظم دار العلوم دیوبند کی تصریح کے مطابق راجح قول یہ ہے کہ حضور ﷺ کے فضلات پاک تھے ۔ ( فتاوی دار العلوم دیوبند : ۱۱۸/۱، قدیم ،نیز دیکھیے : نوادر الفقہ ۳۰۵-۳۰۶، افادات: شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس صاحب جونپوری، فتاوی عثمانی : ۳۰۹/۱) لہذا ایسی صورت میں کوئی اشکال نہیں ہوگا ؛ لیکن اس مسئلے کی تحقیق پر نہ ایمان کا کوئی حصہ موقوف ہے اور نہ عمل صالح کا ، اس قسم کی بحثوں میں فضول پڑنا نہیں چاہیے ، اس کے بجائے ایسے مسائل معلوم کرنے چاہییں جن کا تعلق عمل اور آخرت کی بھلائی سے ہے ۔ ( فتاوی عثمانی: ۷۸/۱) قال ابن عابدین: مطلب فی طہارة بولہ - صلی اللہ علیہ وسلم -(تنبیہ)صحح بعض أئمة الشافعیة طہارة بولہ - صلی اللہ علیہ وسلم - وسائر فضلاتہ، وبہ قال أبو حنیفة کما نقلہ فی المواہب اللدنیة عن شرح البخاری للعینی وصرح بہ البیری فی شرح الأشباہ. قال الحافظ ابن حجر: تظافرت الأدلة علی ذلک. وعد الأئمة ذلک من خصائصہ - صلی اللہ علیہ وسلم -. ونقل بعضہم عن شرح المشکاة لمنلا علی القاری أنہ قال: اختارہ کثیر من أصحابنا، وأطال فی تحقیقہ فی شرحہ علی الشمائل فی باب ما جاء فی تعطرہ - علیہ الصلاة والسلام -( رد المحتار : ۳۱۸/۱، دار الفکر، بیروت )

    (۲) صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص کی کمائی کا اگر اکثر حصہ حلال ہو تو اس کے یہاں کھانے کی گنجائش ہے اور اگر اکثر کمائی حرام ہو تو ایسے شخص کے یہاں کھانا جائز نہیں ہے ، ہاں اگر وہ دعوت کا نظم حلال کمائی سے کرے یا کسی سے قرض لے کر کرے تو گنجائش ہے ۔

    آکل الربا وکاسب الحرام أہدی إلیہ أو أضافہ وغالب مالہ حرام لا یقبل، ولا یأکل ما لم یخبرہ أن ذلک المال أصلہ حلال ورثہ أو استقرضہ، وإن کان غالب مالہ حلالا لا بأس بقبول ہدیتہ والأکل منہا، کذا فی الملتقط۔ ( الفتاوی الھندیة: ۳۴۵/۵، دار الفکر، بیروت ) وقال فی الاختیار لتعلیل المختار: (۱۷۶/۴،فصل فی الکسب، دار الکتب العلمیة، بیروت ) (ولا یجوز قبول ہدیة أمراء الجور) لأن الغالب فی مالہم الحرمة. قال: (إلا إذا علم أن أکثر مالہ حلال) بأن کان صاحب تجارة أو زرع فلا بأس بہ، لأن أموال الناس لا تخلو عن قلیل حرام والمعتبر الغالب، وکذلک أکل طعامہم.


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند