عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت
سوال نمبر: 601502
وضومیں مسواک کب کی جائے گی؟
وضومیں مسواک کب کی جاے گی وضو شروع کرنے سے پہلے یا وضو کے دوران کلی کرتے وقت؟
جواب نمبر: 601502
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:363-263/L=4/1442
مسواک کس وقت کرے اس کے متعلق فقہائے کرام کی دونوں رائے ہیں،بہت سے فقہاء کی رائے ہے کہ کلی کرتے وقت کرے ،اسکے برخلاف دیگر فقہاء کی رائے ہے کہ وضو سے قبل مسواک کرے ؛لہذ ا دونوں طرح عمل کی گنجائش ہے اور ملاعلی قاری نے اس طور پر تطبیق دی ہے کہ مسواک کا اول وقت ابتداءِ وضو ہے اورآخری وقت کلی سے پہلے تک ہے ۔
واختلف فی وقتہ ففی النہایة وفتح القدیر أنہ عند المضمضة وفی البدائع والمجتبی قبل الوضوء الأکثر علی الأول، وہو الأولی؛ لأنہ الأکمل فی الإنقاء.[البحر الرائق شرح کنز الدقائق ومنحة الخالق وتکملة الطوری 1/ 21)(قولہ: عند المضمضة) قال فی البحر: وعلیہ الأکثر، وہو الأولی لأنہ أکمل فی الإنقاء․ (ردالمحتار:۲۳۳/۱کتاب الطہارة ط:زکریا دیوبند )قولہ: "لأن الابتداء بہ سنة أیضا عند المضمضة" تکمیلا للانقاء وہو مختار شیخ الإسلام فی مبسوطہ.[حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح شرح نور الإیضاح ص: 67) قال فی الکفایة واما وقتہ یعنی عند الوضوء فذکر فی کفایة البیہقی والوسیلة والشفاء ان السواک قبل الوضوء وفی تحفة الفقہاء وزاد الفقہاء أنہ سنة حالة المضمضة تکمیلا للانقاء وذکر فی مبسوط شیخ الاسلام ومن السنة حالة المضمضة ان یستاک انتہی.(غنیة المستملی: ۳۳،ط:أشرفیة دیوبند)قولہ (والسواک) یحتمل وجہین: أحدہما أن یکون مجرورا عطفا علی التسمیة، والثانی أن یکون مرفوعا عطفا علی الغسل، والأول أظہر؛ لأن السنة أن یستاک عند ابتداء الوضوء لقولہ - علیہ السلام - لولا أن أشق علی أمتی لأمرتہم بالسواک عند کل وضوء ، وقد واظب علیہ النبی - صلی اللہ علیہ وسلم -.[تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق وحاشیة الشلبی 1/ 4)
(والسِّواکِ) قیل: عطفٌ علی البدایةِ، والأظہَرُ أنہ مجرورٌ عطفاً علی التسمیة، لیدلَّ علی أن السُّنَّة استعمالہ فی أوَّلہ. وقد صرَّحوا بأنَّ محلَّہ قبل المضمضة. ولعلَّ مرادَہم أنہ آخِرُ وقتہ، إذ یجوزُ تقدیمُہ علی غَسل یدہ، کما صَرَّح بہ بعضُہم. [شرح الوقایة لعلی الحنفی 1/ 23)وفی إفراد ہذا الباب من سنن الوضوء إیماء إلی أن السواک لیس من أجزاء الوضوء المتصل بہ وإشارة إلی جواز تقدیم السواک علی الوضوء، وأنہ لیس یتعین أن یکون محلہ قبیل المضمضة.[مرقاة المفاتیح:۸۰/۲باب السواک ط:فیصل دیوبند)الوجہ الثانی: فی بیان وقت الاستیاک. فعند أکثر أصحابنا وقتہ وقت المضمضة، وذکر صاحب (المحیط) وغیرہ: إن وقتہ وقت الوضوء، إلا أن المنقول عن أبی حنیفة أنہ من سنن الدین، فحینئذ یستوی فیہ کل الأحوال، وذکر فی (کفایة المنتہی) : أنہ یستاک قبل الوضوء.[عمدة القاری شرح صحیح البخاری 6/ 181)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند