عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت
سوال نمبر: 601466
حضرت سلیمان علیہ السلام كی ازواج كی تعداد میں تعارض كی توجیہ
بخاری میں احادیث متعارض کہ بارے میں کیا حکم لگے گا جبکہ حضرت سلیمان کی بیگمات کی تعداد ایک روایت میں 60 ایک میں 70ایک میں 90 اور ایک میں 100 ہیں اس میں کون سی روایت درست ہے اور جو درست نہیں ہے جس میں روای کو وہم ہوگیا ہے وہ صحیح بالمعانی الاصطلاحی ہے تو یہ کیسے پتہ چلا گا کہ کون سی حدیث دوسری پر ترجیح رکھتی اس کے اصول تحریر کریں۔
جواب نمبر: 601466
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:357-63T/L=6/1442
سوال میں ذکر کردہ حدیث کے اندر حضرت سلیمان علیہ الصلاة والسلام کی ازواج کی مجموعی طور پر کل تعداد بیان نہیں کی گئی ہے ؛کیونکہ بقول اہل ِ سیر حضرت سلیمان علیہ السلام کی ازواج کی تعداد ان سے کافی زیادہ تھیں ؛ بلکہ ان احادیث میں حضرت سلیمان علیہ السلام اس رات جتنی بیویوں سے مباشرت کرنا چاہتے تھے ان کی تعداد بیان کی گئی ہے ،اور ان کی تعداد روایات میں مختلف بیان کی گئی ہے ،ایک میں 60ایک میں 70 ایک میں 90ایک میں 99اور ایک میں 100ہے اور ان میں سے ہر عدد پر روایات موجود ہیں ان تمام روایات کے اندر بظاہر تعارض ہے؛ مگر اس تعارض کو دفع کرنے کا سہل طریقہ محدثین نے یہ بیان فرمایا ہے عددِ قلیل عددِ کثیر کے منافی نہیں؛ لہٰذا جن روایات میں تعداد کم بیان کی گئی ہے ان میں زیادتی عدد کی نفی نہیں ہے اور جن روایات میں زیادتی عدد کا ذکر ہے ان میں کمی عدد کا بھی ضمنا ذکر ہے ،اور ان روایات کے درمیان دوسری تطبیق اس طور پر دی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا جن بیویوں سے مجامعت کا ارادہ تھا ان میں 60آزاد اور بقیہ باندیاں تھیں یا اس کے برعکس، سو جس روایت میں ساٹھ کا ذکر ہے اس میں صرف بیویوں یا صرف باندیوں کا ذکر ہے اور 70والی روایت مبالغہ پر محمول ہے اور نوے والی روایت میں اوپر کی اکائیوں کا ذکر نہیں ہے جب کہ سو والی روایت میں نوے کے بعد کی اکائیوں کو کثرت کی وجہ سے پوری دہائی مان کر سو قرار دیدیا ہے، یہ مذکورہ بالا تمام طریقے کلام عرب میں رائج ہیں ؛اس لئے روایات کے درمیان کوئی تعارض نہ ہوگا،جہاں تک مسئلہ ہے صحیح احادیث کے باہم تعارض کو رفع کرنے کا تو اگر صحیح احادیث باہم متعارض ہوں تو ان میں تطبیق یا ترجیح کے اصول ،اصول حدیث کی کتابوں میں مذکور ہیں ،لہٰذا ان کی طرف مراجعت کرلی جائے ۔
قال العینی: ولا منافاة بین ہذہ الروایات؛لانہ لیس فی ذالک القلیل نفی الکثیر، وہو من مفہوم العدد،ولا یعمل بہ جمہور اہل الاصول (عمدة القاری:14/ ۵۱۱/ باب من طلب الولد للجہاد) وقال الحافظ: فمحصل الروایات ستون وسبعون وتسعون وتسع وتسعون ومائة والجمع بینہا أن الستین کن حرائر وما زاد علیہن کن سراری أو بالعکس وأما السبعون فللمبالغة وأما التسعون والمائة فکن دون المائة وفوق التسعین فمن قال تسعون ألغی الکسر ومن قال مائة جبرہ ومن ثم وقع التردد فی روایة جعفر وأما قول بعض الشراح لیس فی ذکر القلیل نفی الکثیر وہو من مفہوم العدد ولیس بحجة عند الجمہور فلیس بکاف فی ہذا المقام وذلک أن مفہوم العدد معتبر عند کثیرین واللہ أعلم․ (فتح الباری ۰۶۴/۶ )قولہ: (لأطوفن اللیلة بمائة امرأة) وفی کتاب الجہاد: لأطوفن اللیلة علی مائة امرأة أو تسع وتسعین، وقال ابن التین: وفی بعض الروایات: لأطوفن علی سبعین، وفی بعضہا بألف. قلت: ذکر أہل التاریخ أنہ کانت لہ ألف امرأة: ثلاثمائة حرائر وسبعمائة إماء، واللہ أعلم. وقال الکرمانی: قال البخاری: الأصح تسعون، ولا منافاة بین الروایات إذ التخصیص بالعدد لا یدل علی نفی الزائد․ (عمدة القاری ۰۲۲/۲ )لسلیمان ستون امرأة) وفی روایة سبعون وفی روایة تسعون وفی غیر صحیح مسلم تسع وتسعون وفی روایة مائة ہذا کلہ لیس بمتعارض لأنہ لیس فی ذکر القلیل نفی الکثیر․ (حاشیة نووی/شرح مسلم ۰۲۱/۱۱)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند